ہماری کینیڈا والی دوست کے گھر والدین پاکستان سے پہلی بار آئے۔ کوئی مہینے بعد فون پہ رابطہ ہوا تو اس کی امی سے بھی بات ہوگئی۔ وہ ناروے کا موسم پوچھنے لگیں پھر پوچھتے پوچھتے سیدھا اصل مدے پہ آ گئیں اور برجستہ کہا، ’بیٹی کیا ناروے میں بھی کھانا گھر میں بننے کا رواج نہیں؟‘
کچھ کریدا تو علم ہوا کہ ہماری دوست بیچاری کو انسٹاگرام اور فیس بک کی وہ ریلز لڑ گئی ہیں جن میں دکھائے جانے والے بےداغ آئیڈیل گھر بالکل باربی ڈول کے سے گھر لگتے ہیں جہاں اصل زندگی کے بکھیڑے نہیں ہوتے بلکہ کوئی ڈول ہاؤس کی طرح چابی والے گڈے گڑیا رہتے ہیں۔
آنٹی نے بتایا کہ ان کی بیٹی کھانا نہیں پکاتی کیونکہ اسے باورچی خانہ سمٹا، ستھرا اور شیشے کی طرح چمکتا دیکھنے کا خبط ہو گیا ہے۔ گھر میں جگہ جگہ بھاری بھر کم اور قیمتی کرسٹل کے گلدان رکھے ہیں جن کے باعث دیکھ بھال کر رہنا پڑتا ہے۔ پھر بات آگے بڑھی تو علم ہوا ہماری دوست صاحبہ اپنے والدین کو جھڑک چکی ہیں کیونکہ وہ باربی ڈول ہاؤس کے قواعد کے خلاف عام انسانوں کی طرح رہ رہے تھے۔ جن کا سامان ہوتا ہے، کپڑا لتا ہوتا ہے، جہاں انسان ہوں وہاں ہزار بکھیڑے ہوتے ہیں۔
ہر انسان کو اپنے اطراف کا ماحول اپنے مزاج کے مطابق سجانا سنوارنا اچھا لگتا ہے لیکن عورتوں کے ساتھ سگھڑ پن کے اعلیٰ معیارات کو تاریخی اعتبار سے ہر معاشرے نے نتھی کیا ہے۔ عموماً سگھڑ پن کھانے کی تیاری، امور خانہ داری، معمول کی صفائی اور گھر کو سمیٹنے کی حد تک ہی سمجھا جاتا تھا لیکن بھلا ہو سوشل میڈیا کا کہ جس نے سگھڑ پن کو پاگل پن کی حد تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میری نہ مانیں، ایک کام کریں خود ہی اپنے فیس بک، انسٹا گرام، ٹک ٹاک یا پھر کسی بھی سماجی رابطے کی ایپ پر ڈھونڈیں فریج ڈیکوریشن۔ پھر آپ کی آنکھیں کیا کیا دیکھیں گی اس کے لیے تیار رہیں۔ یہ سگھڑاپے کا تازہ ٹرینڈ ہے جس میں خواتین اپنے فریج کے اندر بھی گلدان رکھتی ہیں، فریج میں سجاوٹی لائٹیں لگاتی ہیں، فریج کے اندر پینٹنگز رکھتی ہیں۔ بعض خواتین نے اپنے فریج کے اندر چھوٹا سا گارڈن بھی سجا رکھا ہے۔
اس پاگل پن کو فریج سکیپنگ کہا جاتا ہے جس میں یہ خواتین اپنے فریج کے اندر کے ماحول کو کسی کمرے کی طرح سمجھتی ہیں۔
ایسے ہی بڑی ٹی وی سکرین کو کسی آرٹ کے نمونے کے طور پہ پیش کرنے کے لیے اسے تصویری فریم میں لگانا، ٹی وی کو لکڑی کے جالی دار شیلف میں چھپانا، گھر میں بجلی کے ہر سوئچ بورڈ کو چھوٹی سی پینٹنگ سے ڈھانپ دینا، چولہے کے آس پاس سجاوٹی فانوس لگانا، صوفوں پہ ہر موسم کے اعتبار سے کشن کے غلاف بدلنا۔ یہ سب مغرب میں معمول سے ہو رہا ہے، پاکستان میں بھی کئی خواتین کو یہ آئیڈیے یقیناً پسند آ رہے ہوں گے، نہایت مایوس کن یہ ہے کہ یہ سب عموماً خواتین ہی کر رہی ہوتی ہیں۔
ایک دوست کو نیا شوق ستایا کہ دعوتوں میں کھانے کے ہر آئٹم پہ ایک تختی لگی ہو جس میں اس ڈش کا نام لکھا ہو۔ ظاہر ہے یہ شوشا بھی آن لائن آرڈر سے منگوا لیا گیا۔ تختی پہ ایک شیف کی ٹوپی بنی ہے اور ساتھ خالی جگہ ہے جہاں مارکر سے ڈش کا نام لکھا جاتا ہے۔
اب جو دعوت ہوئی تو نہاری کے ڈونگے میں ایک بچے سے تختی گر گئی۔ بچے کی اماں نہاری کی تری میں چمچے کی ڈبکیاں مار مار کر موئی تختی ڈھونڈتی رہیں کہ وہ مل جائے، جس پہ لکھا تھا نہاری۔
گھر کی سجاوٹ میں کتنی ہی چیزیں ایسی ہیں جن کی ضرورت ہوتی ہے نہ ان سے گھر خوبصورتی بڑھتی ہے لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے ان کی مصنوعی ضرورت پیدا کی جاتی ہے۔
میں نے خود یہاں ناروے میں ایک عزیزہ کے گھر کا ٹوائلٹ کسی آرٹ گیلری کی طرح سجا دیکھا۔ صاف ستھرا اچھا لگا مگر پھر نظر گئی کچھ کتابوں پہ جو ٹوائلٹ سیٹ کے ساتھ کی دیوار پہ ایک چھوٹے سے شیلف پہ دھری تھیں۔ کتابوں کے ساتھ چھوٹا سا گلابی پھولوں کا گلدان رکھا تھا۔ پوچھا، ’ٹوائلٹ میں یہ کتابیں کون پڑھتا ہے؟‘
جواب ملا، ’یہ سجاوٹ کا ٹرینڈ ہے جس میں ابھی موبائل فون ہولڈر کا اضافہ ہونا ہے۔‘
گھر کی سجاوٹ کے ان ہیجانی ٹرینڈز میں ایک اضافہ کھڑکی دروازوں میں پڑے پردوں کی کئی تہیں ہیں۔ ایک مرکزی سجاوٹی پردہ ہوتا ہے جس کے نیچے جالی والا پردہ ہوتا ہے اور اس کے نیچے چھپی کھڑکی پہ بلائنڈ ہوتا ہے جو اوپر نیچے ہٹایا جا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے پردے کی ایک دو تہہ اور بھی ہوتی ہو جو میں نہیں دیکھ پائی۔
پھر ایک شوق اپنے گھر کی دیواروں کو عام پینٹ یا وال پیپر کے بجائے ریشمی، سوتی، اونی کپڑے یا پھر جانوروں کی کھال سے بنی شیٹس سے لپیٹنا ہے۔ سوشل میڈیا پہ خواتین پھر اپنے گھر کی دیواروں پہ ہاتھ پھیر کر بتاتی ہیں کہ کس قدر اطمینان بخش ہے یہ دیوار۔
سگھڑاپے کے اس پاگل پن میں آئے روز کسی نئے ٹرینڈ کا اضافہ ہو جاتا ہے جس کے پیچھے صرف سوشل میڈیا نہیں آن لائن مارکیٹنگ بھی ہے۔ گھر کی سجاوٹ میں کتنی ہی چیزیں ایسی ہیں جن کی ضرورت ہوتی ہے نہ ان سے گھر خوبصورتی بڑھتی ہے لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے ان اشیا کی مصنوعی ضرورت پیدا کی جاتی ہے جس کے بعد دھڑا دھڑ فروخت ہوتی ہیں۔
ان بے سروپا ٹرینڈز کو خواتین کے جمالیاتی ذوق یا قلبی اطمینان سے جوڑنا بھی کسی فکری اور تجارتی فراڈ سے کم نہیں جس میں ان خواتین کی جیب تو خالی ہوتی ہی ہے لیکن اپنے ڈول ہاؤس کو سنوارے رکھنے میں جو توانائی صرف ہوتی ہے وہ کسی کھاتے میں ہی نہیں۔