سوشل میڈیا کے حوالے سے دنیا بھر میں بحث جاری ہے کہ اس کے ذریعے پھیلنے والی جھوٹی خبروں کو کیسے کنٹرول کیا جائے۔ اس پر بہت سے ماہرین سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
اگر ایک حکومت آگاہی مہم چلانے کے حق میں ہے تاکہ فیک نیوز کو قابو کیا جا سکے تو دوسری حکومت قدغنیں لگانے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔
اگر ایک ماہر سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قوانین کے حق میں ہے تو دوسرا ماہر اس قسم کے کسی قانون یا ریگولیشن کے خلاف ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا ہی نے معاشرے میں مائیک کو اتنا طاقت ور بنا دیا ہے کہ اس کی دھونس ہر جگہ چلتی ہے۔
مائیک پکڑے ایک شخص کسی بھی جگہ چلا جاتا ہے اور پولیس کی طرح تفتیش شروع کر دی جاتی ہے۔
چالان کیوں ہو رہے ہیں اور کیوں نہیں ہو رہے؟ رشوت لی جا رہی ہے؟ سوال پوچھنا ہے تو مائیک لے کر پیچھے پیچھے چل پڑیں اور سوال آٹو ریپیٹ پر لگ جاتا ہے۔
مختصراً یہ کہ مائیک والا ہی جج، جیوری اور جلاد ہے۔ صحافیوں سے بات کی جائے تو سوشل میڈیا جرنلسٹس، جن کو سٹیزن جرنلسٹس بھی کہا جاتا ہے، ان کو صحافی مانتے ہی نہیں۔
ان کے مطابق سٹیزن جرنلسٹس کو نہ صحافتی اقدار کا علم ہے اور نہ ہی ان کی صحافتی تربیت ہوئی ہے۔
لیکن مسئلہ یہ نہیں کہ سٹیزن جرنلسٹس کی صحافیانہ تربیت نہیں ہوئی، مسئلہ یہ ہے کہ کسی نے بھی ان کی تربیت کے لیے کام نہیں کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دنیا میں بہت سارے ممالک نے مختلف اقدامات اٹھائے ہیں، جن میں سے ایک ہے کہ ہر پلیٹ فارم چاہے وہ یوٹیوب پر ہو اس کو رجسٹر کروانا ضروری قرار دیا گیا ہے۔۔
ایسا کرنے سے ہر سوشل میڈیا والا نا صرف ریڈار میں ہو گا بلکہ اس کو یہ خوف بھی ہو گا کہ جھوٹے الزامات لگانے، کسی کی پگڑی اچھالنے اور بےتکی اور غلط خبریں پھیلانے پر اس کی پکڑ کی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب وزارت اطلاعات و نشریات نے اگرچہ فیک نیوز پر کافی حد تک قابو پانے کا دعویٰ کیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ کچھ اقدامات کرنے ضروری ہیں۔
اگر وزارتیں اپنے سے متعلقہ فیک نیوز کا فوری جواب دینے کا طریقہ وضع کر لیں تو اس پر بہت حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔
وزارت اطلاعات و نشریات کے مختلف شعبے فیک نیوز پر روزانہ فیڈ بیک رپورٹس تیار کرتے ہیں۔
ساتھ ہی سینٹر آف ڈیجیٹل کمیونیکیشن یعنی سی ڈی سی رپورٹ تیار کرتا ہے اور وزارت اطلاعات و نشریات کے تمام شعبوں کے فوکل پرسن سوشل میڈیا کی پیٹرولنگ کرتے ہیں اور فیک نیوز کو متعلقہ وزارت کو ٹیگ کرتے ہیں اور ویجیلنس گروپ میں شیئر کرتے ہیں۔
حال ہی میں سوشل میڈیا ٹریننگ کرانے کا موقع ملا جس میں ملک کے چھوٹے چھوٹے شہروں سے سوشل میڈیا صحافی آئے ہوئے تھے۔
ان سب کی ایک ہی ضرورت تھی کہ صحافت کے بارے میں بتائیں۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ کون سے قوانین ایسے ہیں جن کی گرفت میں وہ آ سکتے ہیں اور کون سے قوانین کی مدد کر سکتے ہیں۔
وہ تو سیکھنا چاہتے ہیں اور مستند خبریں دینا چاہتے ہیں لیکن ان کو سکھانے کی بجائے ان کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ ان کو پیشہ ورانہ صحافی نہیں کہا جا سکتا لیکن اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ سوشل میڈیا صحافی ہی ہیں جن کی بہت سی خبریں مرکزی دھارے کے میڈیا میں چلی ہیں۔
ان کو مرکزی دھارے میں لانے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ان پر قدغنیں نہیں بلکہ تربیت دینی چاہیے۔
ہمیں اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ موجودہ اور آنے والا وقت سوشل میڈیا کا ہے، جس میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے زیادہ اہمیت کا حامل سوشل میڈیا ہو گا۔
جتنی جلدی سوشل میڈیا کے صحافیوں کو قومی دھارے میں لے آئیں اتنا ہی اچھا ہے اور یہ صرف اس وقت ہو گا جب ان کی تربیت کی جائے۔