کچھ عرصہ قبل صحافیوں کی ایک ٹریننگ کرانے کا اتفاق ہوا جس میں صحافیوں کو رپورٹنگ کے حوالے سے سماجی اور ثقافتی اقدار کا خیال رکھنے اور جلسے جلوس کی کوریج کے حوالے سے بتانا تھا۔
ٹریننگ جاری تھی اور میں خواتین صحافیوں سے ان کو پیش آنے والے مسائل اور مشکلات کے حوالے سے پوچھ رہا تھا۔ ایک نے بتایا کہ وہ فلاں علاقے میں گئیں تو ان سے کہا گیا کہ چادر پہنو تو دوسری نے کہا کہ جلوس میں وہ پھنس گئیں اور کیمرہ مین نے ان کو بچایا۔
ابھی یہ بات چل ہی رہی تھی کہ ایک مرد صحافی نے بات ٹوکی اور کہا کہ خواتین صحافیوں کے لیے اچھا ہے کہ وہ پریس کانفرنس یا سیمینار ہی کی کوریج کیا کریں تاکہ ان کو یہ مسائل درپیش ہی نہ آئیں۔ ایک بار ان کی اس بات کو نظر انداز کیا گیا اور اپنی ڈسکشن جاری رکھی۔
ابھی بات ہنگاموں کی کوریج پر پہنچی اور کیسے مرد اور خاتون صحافی دونوں ہی اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتے ہیں تو وہ مرد صحافی ایک بار پھر بولے کہ ’ہنگاموں اور جلوسوں کی کوریج کے لیے مرد ہی کو جانا چاہیے کیونکہ کیمرہ مین اپنا کام کم کرتا ہے اور اپنے ساتھ خاتون صحافی کی حفاظت پر زیادہ دھیان دیتا ہے جس سے اس کا کام بھی متاثر ہوتا ہے۔
’اسی لیے تو کہتا ہوں کہ یہ صرف پریس کانفرنس اور سیمینار کی کی کوریج کیا کریں جہاں ان کو کسی قسم کے مسائل پیش نہیں آئیں گے۔‘
یہ صرف ایک جھلک ہے اس مسئلے کی جس کا سامنا پاکستان میں خواتین صحافیوں کرنا پڑتا ہے۔ آخر کیوں ہم خواتین صحافیوں کو ایک بوجھ تصور کرتے ہیں کہ وہ جلسے جلوسوں میں نہ جائیں یا وہ ہنگاموں کی کوریج کے لیے غیر موزوں ہیں؟
کیوں نا انہیں تربیت دی جائے کہ کیسے محفوظ رہ کر جلسے جلوسوں اور ہنگاموں کی کوریج کرنی ہے، کس طرح کسی علاقے میں رپورٹنگ کے لیے جاتے ہوئے اپنے لباس کا خیال رکھنا ہے۔
ہمارے ملک میں خواتین صحافیوں کو نہ صرف اپنے ساتھی مرد صحافیوں سے اس قسم کی باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ ان کو صحافتی اداروں سے بھی تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حال ہی میں ایک محفل میں صحافیوں سے ملاقات ہوئی جن میں خواتین صحافی بھی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ’ایک طرف جہاں پریس کلبوں میں جانے کن کن پیشوں سے وابستہ لوگ ممبر بنے ہوئے ہیں انہی پریس کلبز میں خواتین صحافیوں کو ممبر شپ دینے میں تاخیر کی جاتی ہے۔‘
اگر پریس کلبز ہی خواتین صحافیوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کریں گے تو پھر وہ کیا کریں۔ خواتین صحافی پرعزم ہیں کہ وہ اپنے جگہ بنائیں گی اور جو جگہ ان کے لیے تنگ کی جا رہی ہے اس کے خلاف کوششیں کرتی رہیں گی۔
لیکن ان صحافیوں کو صحافتی تنظیموں کی مدد درکار ہے اور ایک منظم نظام کی ضرورت ہے جس کے تحت خواتین صحافی کے لیے بھی ممبر شپ کے لیے وہی شرائط اور آسانیاں ہوں جو کسی مرد صحافی کے لیے ہیں۔
یہ صرف دو مشکلات ہیں جن کو ادارے یا صحافتی تنظیموں کے ذریعے باآسانی حل کیا جا سکتا ہے۔
اداروں کو اپنی سوچ تبدیل کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ دوسری جانب صحافتی تنظیموں اور پریس کلبز کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ مبینہ طور پر مرد صحافی کو ممبر شپ جلدی مل جائے اور خاتون صحافی چاہے مرد صحافی سے کہیں زیادہ قابل اور اہل ہوں، انہیں ممبر شپ بعد میں ملے۔
خواتین صحافیوں کو ان کے علاوہ بھی بہت سارے مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور ان کے حل میں صحافتی تنظیموں اور صحافیوں کو مل کر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔