خواتین صحافی کیریئر میں کیوں آگے نہیں بڑھ پاتیں؟

کیا وجوہات ہیں کہ خواتین صحافیوں کو نیوز روم میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات نہیں کیا جاتا جبکہ ان کی تنخواہ بھی عموماً مردوں کی نسبت کم ہوتی ہے؟

ایک خاتون صحافی کا کہنا تھا کہ ادارہ ان کو تنخواہ چھ ماہ کے وقفے سے دیتا تھا مگر ان کا کام روز کی بنیاد پر پرکھا جاتا تھا  (پیکسلز)

پاکستان میں میڈیا میں کام کرنے والی خواتین کی اکثریت کا کہنا ہے کہ سال ہا سال بعد بھی صحافتی اداروں میں ان کی اہم یا سینیئر پوزیشنوں پر ترقی نہیں ہو پاتی جبکہ ان کی رائے بھی اہم صحافتی فیصلے لیتے ہوئے مدنظر نہیں رکھی جاتی۔ 

اس حوالے سے نجی تنظیم ’میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی‘ نے ایک ریسرچ رپورٹ جاری کی، جس میں 103 صحافی خواتین سے ان کے سالوں پر محیط صحافتی کیریئر کے باوجود ترقی نہ ہونے کی وجوہات پر بات کی گئی۔

اینکر عائشہ خالد نے اپنی ریسرچ میں کہا کہ انہوں نے جب خواتین صحافیوں سے پوچھا کہ کیا نیوز رومز میں انہیں صنفی بنیاد پر تفریق کا سامنا کرنا پڑا تو اس کے  جواب میں 79 فیصد خواتین نے کہا کہ انہوں نے صنفی بنیاد پر اپنے میڈیا اداروں میں کیریئر میں امتیازی سلوک کا سامنا کیا ہے۔

تاہم صرف 18 فیصد کا کہنا تھا کہ انہوں نے صنفی بنیاد پر تفریق کا سامنا نہیں کیا۔

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے عائشہ خالد اور ایم ایم ایف ڈی کی شریک بانی صدف خان اور نیشنل پریس کلب کی نائب صدر مائرہ عمران سے بھی گفتگو کی، جسے یہاں سنا جاسکتا ہے۔

عائشہ خالد کے مطابق سامنے آنے والی وجوہات میں سرِفہرست میل ڈومینیٹڈ یعنی مردوں کی بالادستی والا ماحول، اہم بیٹ (موضوعات) کی کوریج کی اجازت نہ ملنا جیسے کہ ملکی سیاست، آئی ایس پی آر، دفتر خارجہ وغیرہ اور صرف فیشن، لائف سٹائل اور انٹرٹینمنٹ تک محدود رہنا، شامل ہیں۔

اس کے علاوہ ایک بہت اہم مسئلہ جو خواتین صحافیوں کو سب سے زیادہ برداشت کرنا پڑتا ہے وہ جینڈر پے گیپ، یعنی تنخواہ مردوں کے برابر نہ ہونا ہے۔

سروے کے مطابق 32 فیصد خواتین کے خیال میں مردوں کی بالادستی والے نیوز رومز جبکہ تقریباً 23 فیصد کے خیال میں خواتین کے اعلیٰ عہدوں پر نہ ہونے کی وجہ سے ان کو تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جبکہ تقریباً 19 فیصد کے خیال میں مواقعوں غیر مساوی تقسیم بھی صنفی امتیاز کا ایک اہم پہلو ہے۔ 13 فیصد کے خیال میں جینڈر پے گیپ اور چھ فیصد نے کام کرنے کے بے قاعدہ اوقات کو اہم مسئلہ قرار دیا۔

لاہور سے ایک خاتون صحافی نے بتایا کہ ان کے 28 سالہ کیریئر میں انہیں 18 سال تک اس مسئلے کا علم تک نہ ہوسکا کہ ان کو کس رویے کا سامنا ہے، جبکہ ان کی رائے میں خواتین کو روزگار اور دیگر مواقع اس لیے بھی کم ملتے ہیں کیونکہ اداروں کو ان کو آنے جانے کے لیے گاڑی کی سہولت نہ دینا پڑے۔

ایک خاتون صحافی کا کہنا تھا کہ ادارہ ان کو تنخواہ چھ ماہ کے وقفے سے دیتا تھا مگر ان کا کام روز کی بنیاد پر پرکھا جاتا تھا۔

خواتین کو نیوز رومز میں اعلیٰ عہدوں میں سالوں بعد بھی کیوں نہیں رکھا جاتا؟ اس کی وجوہات ریسرچ کے مطابق دقیانوسی تصورات، خواتین کا بچوں کی ماں ہونا، نیوز رومز میں خواتین کی تعداد کم ہونا وغیرہ گردانا گیا۔ 32 فیصد خواتین نے دقیانوسی خیالات کو اصل مسئلہ قرار دیا۔ 

47 فیصد خواتین نے کہا کہ ان کو اپنے اداروں کی طرف سے صنفی بنیاد پر مساوی سلوک کرنے سے متعلق پالیسی کا علم ہی نہیں جبکہ 30 فیصد سے زائد کا کہنا تھا ان کے اداروں میں یہ پالیسی موجود نہیں ہے۔

جینڈر پے گیپ کے حوالے سے تقریباً 85 فیصد نے کہا کہ ان کو مردوں کی نسبت کم تنخواہ ملتی ہے جبکہ 14 فیصد نے نفی میں جواب دیا۔

جب کام کی جگہ پر ہراسانی کی بات آئی تو 55 فیصد نے ہاں اور 45 فیصد نے نفی میں جواب دیا۔

ان مسائل کے تناظر میں تجاویز دیتے ہوئے ریسرچ میں کہا گیا کہ خواتین کو زیادہ سے زیادہ نیوز رومز کا حصہ بننا چاہیے جبکہ جن خواتین صحافیوں کے بچے ہیں ان کو ڈے کیئر کی سہولت فراہم کرنی چاہیے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دفتر