کیا صحافی کو ذاتی ڈیٹا دینے کے لیے مجبور کیا جا سکتا ہے؟

صحافی شاہد اسلم کو سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے اثاثوں سے متعلق معلومات شائع کرنے کے الزام میں جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا گیا ہے جبکہ ایف آئی اے کی جانب سے ان پر اپنے ذرائع ظاہر کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔

صحافی شاہد اسلم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے، 30 جنوری کو عدالت میں پیش کیا جائے گا (ٹوئٹر شاہد اسلم)

سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے خاندان کے اثاثوں سے متعلق معلومات شائع کرنے کے الزام میں گرفتار صحافی شاہد اسلم جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں جبکہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کی جانب سے ان پر اپنے ذرائع ظاہر کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔

بول نیوز کے انگریزی اخبار سے منسلک صحافی شاہد اسلم کو رواں سال 13 جنوری کو سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے ٹیکس ریکارڈ لیک کرنے سے متعلق کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔

سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے ایف بی آر سے ڈیٹا لیکس کیس میں صحافی شاہد اسلم کو جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجنے سے متعلق فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے کی جانب سے جوڈیشل ریمانڈ کے لیے بتائی گئی وجہ ’غیر تسلی بخش‘ ہے۔

صحافی شاہد اسلم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے اور انہیں 30 جنوری کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

شاہد اسلم کا جوڈیشل ریمانڈ

پیر کو سماعت میں جوڈیشل مجسٹریٹ عمر شبیر نے چار صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں کہا: ’شاہد اسلم تین روز فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحویل میں تھے لیکن تفتیش آگے بڑھتی دکھائی نہیں دی جبکہ پراسیکیوشن نے خود کو شاہد اسلم کے لیپ ٹاپ اور موبائل فون تک محدود رکھا ہے۔‘

’پراسیکیوشن نے جسمانی ریمانڈ لیپ ٹاپ اور موبائل سے فورینسک ڈیٹا نکلوانے کے لیے مانگا جنہیں فارنسک کے لیے بھیجا جا چکا ہے۔‘

فیصلے کے مطابق عدالت کو لگتا ہے کہ شاہد اسلم کا مزید جسمانی ریمانڈ منظور کرنے کی ضرورت نہیں۔ ’عدالت اس بنیاد پر جسمانی ریمانڈ نہیں دے سکتی کہ ایف آئی اے لیپ ٹاپ یا موبائل سے مزید ثبوت لے گی۔‘

’ایف آئی اے تفتیشی افسر نے جسمانی ریمانڈ لینے کی ایک وجہ کے علاوہ کوئی اور وجہ نہیں بتائی اور کہا کہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کے لیے ایف آئی اے کی جانب سے بتائی گئی وجہ غیرتسلی بخش ہے۔‘

کیا صحافی سے ذاتی ڈیٹا دینے کے لیے مجبور کیا جا سکتا ہے؟

قانونی امور کے ماہر شاہ خاور نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب کسی کو گرفتار کرنے کے بعد جسمانی ریمانڈ لیا جاتا ہے تو اس کا مقصد معلومات لینا ہوتا ہے تاکہ ڈیٹا تک رسائی ممکن ہو سکے۔

ان کے مطابق اب جب شاہد اسلم کو جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا گیا ہے تو انہیں ڈیٹا دینے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

شاہ خاور نے کہا کہ ’آئین پاکستان کا آرٹیکل 17 جو معلومات تک رسائی سے متعلق ہے، اس کے تحت صحافی کو خبر کے ذریعے سے متعلق جاننے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کسی جھوٹی خبر کا کوئی ثبوت نہ ہو تو پھر یہ جرم بنتا ہے۔ لیکن یہاں جنرل باجوہ کے اثاثوں سے متعلق تفصیلات غلط نہیں ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’اگر کسی نے ایف بی آر سے یہ تفصیلات لے کر چھاپ دی ہیں تو وہ غلط نہیں ہیں۔ ایف بی آر قوانین کے مطابق کسی بھی شخص سے متعلق تفصیلات کسی اور کو فراہم نہیں کی جا سکتیں جو کہ ایک غیر قانونی عمل ہے۔ لیکن ایسی تفصیلات شائع یا نشر کرنےمیں کوئی حرج نہیں، اور شاہد اسلم ڈیٹا فراہم کرنے کے پابند نہیں ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صحافی کی جانب سے کسی خبر کے حوالے سے ایف آئی اے یا کسی دوسرے تفتیشی ادارے کو پاس ورڈ فراہم نہ کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں صحافی حامد میر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صحافی ڈیٹا فراہم کرنے کا قطعی طور پر پابند نہیں۔

’کوئی بھی ریاستی ادارہ یا اتھارٹی کسی صحافی کو اپنا ذریعہ ظاہر کرنے اور لیپ ٹاپ یا فون کا پاس ورڈ فراہم کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔ یہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔‘

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا حوالہ

سماعت کے دوران تفتیشی افسر نے بتایا کہ دو دن میں شاہد اسلم نے کہا کہ وہ ماضی میں فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) سے ڈیٹا لیتے رہے ہیں۔

انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ شخصیات کون تھیں جن کا وہ ڈیٹا لیتے رہے۔ تفتیشی افسر کے مطابق شاہد اسلم لیپ ٹاپ اور موبائل فون کا پاس ورڈ دینے میں تعاون نہیں کر رہے۔ 

انہوں نے کہا: ’میری ڈیڈ باڈی پر ہی پاس ورڈ لیں گے۔‘

پراسیکیوٹر نے کہا: ’ہم نے لیپ ٹاپ موبائل فرانزک کے لیے دیا ہے اس کا پاسورڈ بریک کریں گے، اگر کوئی قابل اعتراض ڈیٹا ملتا ہے تواس کو کنفرنٹ کروانا ضروری ہے۔ ہم مستقل ملزم سے پاس ورڈ لینے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ نہیں دے رہے۔‘

وکیل صفائی نے کہا کہ صحافی ہونے کی وجہ سے ان کا رابطہ ملازمین کے ساتھ ہو سکتا ہے، ’انہوں نے ثابت کرنا ہے کہ کس دن، وقت اور مقام پر رشوت دی گئی۔ ‘

وکیل نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’ریٹائرڈ جنرل قمر جاوید باجوہ نے یہ کبھی نہیں کہا کہ وہ اس کے متاثرہ فریق ہیں۔ اس طرح کا کیس جسٹس قاضی فائز عیسی کا تھا جہاں ان کا ان کی اہلیہ کا ڈیٹا لیک ہوا لیکن اس کیس کو کسی نے نہیں سنا۔ ایف آئی اے اور ایف بی آر اس کیس میں سو رہے تھے۔ آئینی عہدے پر تعینات معزز جج کے ڈیٹا لیک پر پھرتیاں کہیں دیکھائی گئیں؟‘

وکیل نے مزید نے اپنے دلائل میں کہا: ’قمر جاوید باجوہ کے خاندان کے خلاف شاہد اسلم نے کوئی درخواست چیئرمین نیب کو نہیں دی، جو الزامات ان پر لگے ہیں اصل میں یہ نیشنل سیکورٹی کا مسئلہ ہیں۔‘

نومبر 2022 میں فیکٹ فوکس نامی جریدے میں ایک تحریر میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خاندان کی اثاثوں میں مبینہ اضافے کے بارے میں لکھا گیا تھا اور صحافی شاہد اسلم پر الزام ہے کہ وہ اس ڈیٹا لیک میں ملوث ہیں۔

اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کے آرمی چیف کے عہدے پر تعینات ہونے کے بعد سے قمر باجوہ کی اہلیہ اور بہو کے اثاثوں میں ’بے تحاشہ اضافہ ہوا تھا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان