امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے بدھ کو ایسی تمام خبروں کی تردید کی ہے جن کے مطابق لبنان میں ہونے والے جان لیوا پیجر حملے کا امریکہ کو پہلے سے علم تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اینٹنی بلنکن کا کہنا ہے کہ لبنان میں ہونے والے ’پیجر دھماکوں کا نہ تو امریکہ کو علم تھا اور نہ ہی اس کا ان سے کوئی تعلق ہے۔‘
دوسری جانب ایران نے لبنان دھماکوں کے بعد اسرائیل پر ’قتل عام‘ کا الزام لگایا ہے۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے ایک بیان میں ’صہیونی حکومت کے دہشت گردانہ عمل کی مذمت‘ کی اور اسے ’قتل عام کی مثال‘ قرار دیا ہے۔
اس سے قبل امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق لبنانی گروپ حزب اللہ کے زیر استعمال پیجرز، جو منگل کو بیک وقت پھٹے تھے، تائیوان سے آئے تھے اور لبنان پہنچنے سے کچھ عرصہ قبل ان میں دھماکہ خیز مواد بھرا گیا تھا۔ تائیوان نے اس الزام سے انکار کیا ہے۔
نیویارک ٹائمز نے نامعلوم امریکی اور ’دیگر‘ عہدیداروں کے حوالے سے خبر دی ہے کہ پیجرز کو تائیوانی پیجر ساز ادارے ’گولڈ اپولو‘ سے آرڈر کیا گیا تھا۔
کچھ عہدیداروں نے امریکی اخبار کو بتایا کہ اسرائیل نے لبنان پہنچنے سے قبل ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تھی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق لبنان میں ہونے والے حملوں کے نتیجے میں ملک بھر میں پیجرز پھٹے جس سے کم از کم نو افراد مارے گئے اور لبنان میں تعینات ایرانی سفیر سمیت 2800 کے قریب افراد زخمی ہوئے تھے۔ اس کا الزام اسرائیل پر عائد کیا گیا ہے۔
لبنان کے وزیر صحت فراس ابیاد نے کہا کہ ان دھماکوں میں ایک لڑکی سمیت نو افراد مارے گئے۔
حزب اللہ کے ایک قریبی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ ’جن پیجرز میں دھماکہ ہوا ہے وہ ایک ہزار ڈیوائسز والی اس ایک کھیپ کا حصہ ہیں جو حزب اللہ کی جانب سے حال ہی میں درآمد کی گئی ہے۔‘
نیویارک ٹائمز نے خبر دی ہے کہ گولڈ اپولو سے تقریبا تین ہزار پیجرز کا آرڈر دیا گیا تھا، جن میں سے زیادہ تر اے آر 924 ماڈل کے تھے۔
برسلز سے تعلق رکھنے والے فوجی اور سکیورٹی تجزیہ کار ایلیاہ میگنیر نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’اسرائیل کو پیجرز کی نئی کھیپ میں دھماکہ خیز مواد شامل کرنے کے لیے ممکنہ طور پر ان آلات کی سپلائی چین تک رسائی کی ضرورت ہوگی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اسرائیلی انٹیلی جنس نے پروڈکشن کے عمل میں دراندازی کی ہے اور بغیر کسی شک و شبہے کے پیجرز میں دھماکہ خیز مواد اور ریموٹ ٹریگرنگ میکانزم شامل کیا ہے، جس سے یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ یہ آلات فروخت کرنے والا تیسرا فریق اسرائیل کی جانب سے اس مقصد کے لیے قائم کیا گیا ’انٹیلی جنس فرنٹ‘ ہو سکتا ہے۔
اس واقعے پر اسرائیل کی جانب سے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب تائیوان کی گولڈ اپالو کمپنی کا کہنا ہے کہ اس نے وہ پیجرز نہیں بنائے جو لبنان میں پھٹے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق تائیوان کی گولڈ اپولو نے بدھ کو کہا کہ لبنان میں پھٹنے والے پیجر اس نے نہیں بلکہ بی اے سی نامی کمپنی نے بنائے ہیں جس کے پاس اس کا برانڈ استعمال کرنے کا لائسنس ہے۔
لبنان کے ایک سینیئر سکیورٹی ذرائع اور ایک اور ذریعے کے مطابق ان آلات کے اندر دھماکہ خیز مواد اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے نصب کیا تھا۔
روئٹرز نے پھٹے ہوئے پیجرز کی تصاویر کا تجزیہ کیا گیا جس میں ان کے پیچھے ایک فارمیٹ اور سٹیکرز دکھائی دے رہے تھے جو گولڈ اپولو کے بنائے گئے پیجرز سے مطابقت رکھتے تھے۔
گولڈ اپولو کے بانی اور صدر سو چنگ کوانگ نے بدھ کو شمالی تائیوان کے شہر نیو تائپے میں کمپنی کے دفتر میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’یہ پروڈکٹ ہماری نہیں تھی۔ اس پر ہمارا صرف برانڈ لگا ہوا تھا۔‘
کمپنی نے ایک بیان میں کہا کہ اے آر-924 ماڈل بی اے سی نے تیار اور فروخت کیا تھا۔
بیان میں کہا گیا کہ گولڈ اپولو نے ’بی اے سی کو مخصوص علاقوں میں مصنوعات کی فروخت کے لیے اپنا برانڈ ٹریڈ مارک کو استعمال کرنے کی اجازت دی ہے لیکن مصنوعات کے ڈیزائن اور مینوفیکچرنگ کو مکمل طور پر بی اے سی سنبھالتی ہے۔‘
سو چنگ کوانگ نے قبل ازیں کہا تھا کہ لائسنس رکھنے والی فرم یورپ میں قائم ہے لیکن بعد میں بی اے سی کے مقام پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ فرم کی جانب سے ترسیلات زر میں مسائل تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ’ترسیلات زر بہت عجیب تھیں،‘ادائیگیاں مشرق وسطیٰ سے ہوئی تھیں۔ انہوں نے مزید وضاحت نہیں کی۔
حزب اللہ کی کارروائیوں سے واقف دو ذرائع نے رواں سال روئٹرز کو بتایا تھا کہ حزب اللہ کے جنگجوؤں نے اس یقین کے ساتھ پیجرز کا استعمال شروع کر دیا تھا کہ وہ اپنے ٹھکانوں پر اسرائیلی ٹریکنگ سے بچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
سو چنگ کوانگ نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ پیجرز کو دھماکے سے اڑانے کے لیے اس میں کس طرح چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے۔
جب سو چنگ نامہ نگاروں سے ملاقات کر رہے تھے تو پولیس حکام کمپنی پہنچے۔ تائیوان کی وزارت اقتصادیات کے عہدیداروں نے بھی گولڈ اپولو کا دورہ کیا۔
وزارت نے ایک بیان میں کہا کہ تائیوان سے لبنان کو براہ راست پیجر کی برآمدات کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔
سو چنگ کوانگ نے یہ بھی کہا کہ گولڈ اپولو اس واقعے سے متاثر ہوئی اور اس نے لائسنس یافتہ پر مقدمہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم ایک بڑی کمپنی نہ سہی لیکن ہم ایک ذمہ دار ہیں۔ یہ بہت شرمناک ہے۔‘
اُدھر امریکی ویب سائٹ axios کے مطابق اسرائیل نے لبنان میں حزب اللہ کے مواصلاتی نظام پر حملے سے پہلے امریکہ کو آگاہ نہیں کیا تھا اور ان دھماکوں کی کارروائی کی منظوری رواں ہفتے ہونے والے سیکورٹی اجلاسوں کے دوران دی گئی تھی۔
اجلاس میں وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو، سینیئر حکومتی ارکان اور سکیورٹی اداروں کے سربراہوں نے شرکت کی تھی۔
امریکی ویب سائٹ کے مطابق اسرائیلی کارروائی نے لبنان میں حزب اللہ کے عسکری کمان و کنٹرول کا نظام معطل کر دیا ہے۔
اسرائیلی ذمے داران نے ویب سائٹ axios کو بتایا کہ ’حزب اللہ کے ممکنہ رد عمل کے پیش نظر فوج انتہائی چوکنا حالت میں ہے۔‘
حزب اللہ نے اسرائیل کو مواصلاتی نظام کو دھماکوں سے اڑانے کی ذمے داری اسرائیل پر عائد کرتے ہوئے جوابی کارروائی کا عہد کیا ہے۔
لبنانی وزیر صحت نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ لوگوں کو زیادہ تر زخم ’چہرے، ہاتھ اور پیٹ‘ پر آئے ہیں۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو ملیر نے صحافیوں کے سامنے ان شکوک پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ دھماکوں کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہے۔
میل ویئر
مشرق وسطیٰ میں قائم سکیورٹی اور رسک مینجمنٹ کنسلٹنگ فرم لی بیک انٹرنیشنل کے انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ مائیکل ہورووٹز نے العریبیہ کو بتایا ہے کہ اس کی وجہ غالباً میل ویئر ہے جس کی وجہ سے پیجر کی بیٹریاں زیادہ گرم اور پھٹ جاتی ہیں۔ ان بیٹریوں کے گرم ہونے سے ان کے قریب رکھا مواد پھٹ گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’دونوں صورتوں میں یہ ایک بہت ہی نفیس حملہ ہے۔ خاص طور پر اگر یہ ایک جسمانی خلاف ورزی ہے، کیوں کہ اس کا مطلب ہے کہ اسرائیل کو ان آلات کی مصنوعات تک رسائی حاصل ہے۔ یہ حزب اللہ کے لیے ایک پیغام کا حصہ ہو سکتا ہے۔‘
العربیہ کے ذرائع نے تصدیق کی کہ حزب اللہ نے اپنے تمام اراکین کو ان آلات کے استعمال کو فوری طور پر ترک کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔