مسئلہ کشمیر کے لیے مشیر برائے استصواب رائے کی ضرورت

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے عبوری آئین کے آرٹیکل 11 کے مطابق صدر جموں و کشمیر ایک مشیر برائے استصوابِ رائے تعینات کر سکتے ہیں جو حکومت کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر میں استصواب رائے کے انتظام کے لیے مشورہ دے سکے۔

وزیر اعظم عمران خان کی جنرل اسمبلی میں پر جوش تقریر کے بعد یہ ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر میں عالمی سطح پر جو آگاہی اور دلچسپی پیدا ہوئی ہے، اسے نہ صرف برقرار رکھا جائے بلکہ اس میں مزید تیزی لائی جائے۔ (اے ایف پی)

وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے ذریعے دنیا بھر میں مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو پوری قوت سے اجاگر کیا ہے۔ عمومی رائے یہ ہے کہ یہ تقریر بہت توجہ سے سنی گئی اور اس سے یقیناً دنیا کے اہم دارالحکومتوں میں مسئلہ کشمیر کی سنگینی کا احساس ہوگیا ہوگا۔ اس تقریر کے بعد امریکی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کرفیو اور پابندیوں کے خاتمے پر زور دیا ہے۔

اس پُرجوش تقریر کے بعد یہ ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر میں عالمی سطح پر جو آگاہی اور دلچسپی پیدا ہوئی ہے اسے نہ صرف برقرار رکھا جائے بلکہ اس میں مزید تیزی لائی جائے۔ اس سلسلے میں کوششیں تخلیقی اور متنوع ہونی چاہییں تاکہ ایسا دباؤ پیدا کیا جا سکے کہ بھارت اپنے اقدامات واپس لینے پر مجبور ہو جائے اور کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلانے کے لیے راستہ ہموار ہوسکے۔

یہ اقدامات اس لیے بھی ضروری ہیں کہ حال ہی میں کشمیر کو بین الاقوامی میڈیا کی جو توجہ ملی ہے اس میں تھکاوٹ کے آثار نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اگر اس تھکاوٹ میں اضافہ ہوا تو بھارت کامیابی سے کشمیری مزاحمت کو مستقل بنیادوں پر نقصان پہنچا سکتا ہے۔ بھارت کے خیال میں اگر وہ مزاحمت مزید چند ماہ روکنے میں کامیاب رہا تو مسئلہ کشمیر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا اور دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوجائے گا۔

بھارتی قبضے کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے مودی حکومت نے جموں و کشمیر کے لیے ایک وسیع اور جامع معاشی ترقیاتی منصوبہ ترتیب دیا ہے، جس پر وادی میں حالات بہتر ہونے کے بعد عمل درآمد کیا جائے گا۔ اس منصوبے کے مطابق ان علاقوں میں 50 ہزار کے قریب نئی سرکاری ملازمتیں پیدا کی جائیں گی اور  دس ہزار کروڑ روپے کی لاگت سے تقریباً 35 بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع کیے جائیں گے۔ 

ابوظہبی میں وسیع کاروبار کے مالک بھارتی ارب پتی شیٹی نے وزیراعظم مودی کے حالیہ دورہ متحدہ عرب امارات کے دوران جموں و کشمیر میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارتی حکومت نے تقریباً سو کے قریب عالمی معیار کے ہوٹل بنا کر صحت پر مبنی سیاحت کو فروغ دینے کا منصوبہ بھی تیار کیا ہے۔ اس کے علاوہ چار لاکھ 70 ہزار نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم دینے کے لیے متعدد تعلیمی ادارے بھی قائم کیے جائیں گے۔

یہ تمام منصوبے کرفیو ختم ہونے کے بعد حالات میں بہتری آنے کی صورت میں شروع کیے جائیں گے۔ یہ ایک طرح سے کشمیریوں کو لالچ دینے کے حربے ہیں جو کچھ کشمیریوں کو یقیناً متاثر کریں گے۔ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے موقع پرست رہنما اس بھارتی جھانسے میں دوبارہ آ سکتے ہیں۔ آنے والے وقت میں ان ممکنات کی وجہ سے ہماری پوری کوشش ہونی چاہیے کہ مسئلہ کشمیر بین الاقوامی میڈیا کی مسلسل توجہ کا مرکز بنا رہے اور بھارت اس مسئلے کے انسانی پہلوؤں کو حل کرنے کے لیے عالمی دباؤ کا مسلسل ہدف بنا رہے۔ اس کے علاوہ ہمیں کشمیری مزاحمت کی ہر قسم کی قانونی، سیاسی اور سفارتی مدد جاری رکھنی چاہیے۔

اس سلسلے میں کشمیری جدوجہد کی موثر مدد کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

تقریباً تمام بین الاقوامی میڈیا اور دانشور بشمول پاکستانی دانشور اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ نائن الیون کے بعد حق خودارادیت کی تحریکوں کو سخت نقصان پہنچا ہے اور ہر ایسی تحریک کو دہشت گردی سے تعبیر کیا جانا عام ہو گیا ہے۔ اس وجہ سے حقِ خودارادیت کی کسی بھی مسلح جدوجہد بشمول کشمیری مزاحمت کی عالمی قبولیت ممکن نہیں ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ یک پہلو نقطہ نظر درست نہیں ہے۔ ہمیں حقائق کے زور پر اس غلط فہمی کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر نائن الیون کے بعد حق خودارادیت کی کوشش دہشت گردی کے مترادف ہے تو مغربی ممالک نے مل کر جنوبی سوڈان کی آزادی کی مسلح جدوجہد کی حمایت اور اس کی مدد کیوں کی، جس کے نتیجے میں ایک جائز اور قانونی طور پر قائم ملک سوڈان کو2011 میں دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا اور یہ تقسیم اقوام متحدہ کی زیرنگرانی نائن الیون کے واقعے کے بعد ہی ظہور پذیر ہوئی۔ اس لیے اس غلط فہمی کو دور کرنے کی ضرورت ہے کہ حق خودارادیت کا زمانہ ختم ہوگیا ہے۔

اس سلسلے میں ہمیں دانشوروں اور سفارت کاری کے ماہرین کا ایک گروپ تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو مغربی ممالک خصوصاً امریکہ میں میڈیا، تھنک ٹینک، معاشرتی تحقیقاتی اداروں اور دانشوروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے اور کشمیر کے مسئلے کے قانونی، انسانی اور سیاسی پہلوؤں پر بین الاقوامی رائے ہموار کرے۔ بین الاقوامی شہرت کے لکھاریوں سے رابطہ کرکے انہیں بھی اس مسئلے پر لکھنے کے لیے حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں اگر ہمیں تحقیقی مضامین،  رسائل اور کتب وغیرہ بھی تحریر کرانی پڑیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔

پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے عبوری آئین کے آرٹیکل 11 کے مطابق صدر جموں و کشمیر ایک مشیر برائے استصوابِ رائے تعینات کر سکتے ہیں جو کہ حکومت کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر میں استصواب رائے کے انتظام کے لیے مشورہ دے سکے۔ چونکہ اس آرٹیکل میں مشیر کی قومیت پر کوئی قدغن نہیں ہے اس لیے پاکستان اور اس کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی حکومتوں کو باہمی مشورے سے کسی نمایاں اور بین الاقوامی شہرت کی حامل شخصیت کو تلاش کرنا چاہیے اور اسے اس انسانی مسئلے میں مدد کے لیے قائل کرنا چاہیے۔

اس مشیر کے فرائض میں مغربی ممالک، خصوصاً امریکہ میں رائے عامہ کو ہموار کرنا اور فیصلہ سازوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہنا اور انہیں مسئلہ کشمیر کی سنجیدگی اور اس کے حل کی اہمیت کے بارے میں یاد دہانی کرانا شامل ہو۔ جیسا کہ وزیراعظم نے جنرل اسمبلی میں بہت کھلے الفاظ میں بتا دیا ہے کہ اس مسئلے کا حل نہ ہونا اس خطے کو نیوکلیائی تصادم کی طرف لے جا رہا ہے اور اس تصادم سے بچنے کے لیے اور ساری دنیا کے امن کے لیے ضروری ہے کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے۔ مجوزہ مشیر کی بھی یہی ذمہ داری ہوگی۔ وہ مغربی رائے عامہ کو اس مسئلے کے حل کے لیے اپنے حکمرانوں پر زور ڈالنے پر مائل کریں گے۔

اس سلسلے میں مشیر کو خصوصاً امریکہ میں ایک بہترین شہرت کے حامل لابیینگ ادارے کی مدد کی ضرورت ہوگی۔ ہمیں کسی بھی ایسے ادارے کی خدمات حاصل کرنے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہوگی جس میں تمام مقامی قوانین کی پابندی شامل ہو۔ اس سلسلے میں ہمیں ان غلطیوں سے اجتناب کرنا ہوگا جو کہ غلام نبی فائی کی تعیناتی میں کی گئیں۔ ہمیں یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ اس مہم میں وسائل کے استعمال میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہو۔ مشیر کے موثر ہونے کے لیے ان کا پاکستان اور کشمیر میں اعلیٰ قیادت سے مشورے کے لیے ہر وقت بلا کسی رکاوٹ کے رابطہ میں رہنا ضروری ہو گا۔

اس اہم عہدے کے لیے ایک مشہور نام ذہن میں آتا ہے اور اگر حکومت پاکستان انہیں اس اہم ذمہ داری کے لیے قائل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو قوی امید ہے کہ مسئلہ کشمیر عالمی منظرنامے پر بھرپور طریقے سے ابھر کر سامنے آئے گا۔ یہ امیدوار گذشتہ برس انتقال کر جانے والے اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان جیسی کوئی شخصیت یا ملالہ یوسفزئی ہو سکتی ہیں۔ گو پاکستان میں کچھ حلقوں میں ان کے بارے میں منفی جذبات پائے جاتے ہیں مگر بین الاقوامی طور پر یہ بھی ایک بڑا نام ہے۔ چونکہ وہ نوبیل انعام یافتہ بھی ہیں تو ان کی بین الاقوامی سطح پر کشمیریوں کی پرزور وکالت اس دیرینہ مسئلے کو حل کرنے میں کافی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ