افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں قید تین امریکیوں میں سے ایک کے اہل خانہ نے واشنگٹن پر زور دیا ہے کہ وہ اس کے ٹھکانے کی تصدیق کرے۔
افغانستان میں پیدا ہونے والے 37 سالہ امریکی شہری محمود شاہ حبیبی ایک امریکی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی میں کام کر رہے تھے جب اگست 2022 میں ایک ڈرون حملے میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی موت کے بعد طالبان نے انہیں گرفتار کیا تھا۔
طالبان نے ممکنہ طور پر یہ فرض کر لیا کہ حبیبی کے سابق آجر، امریکی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن، اس حملے میں ملوث تھے، لیکن انہوں نے ان پر کوئی الزام عائد نہیں کیا۔
سی آئی اے میں ملازمت کرنے والی سابق امریکی جاسوس سارہ ایڈمز نے حال ہی میں بغیر ثبوت فراہم کیے دعویٰ کیا تھا کہ مسٹر حبیبی کو طالبان نے القاعدہ کے حوالے کیا تھا اور امکان ہے کہ انہیں جلد ہی پھانسی دے دی جائے گی۔
ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انہیں کابل یا امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے ایسی کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔
حبیبی کے بھائی احمد شاہ حبیبی نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’میں ان اطلاعات سے متفق نہیں ہوں کہ طالبان نے میرے بھائی کو القاعدہ کے حوالے کر دیا ہے۔ میری معلومات کے مطابق، طالبان کے پاس وہ ہیں۔ وہ اسے اگست 20222 میں لے گئے تھے اور وہ اب بھی موجود ہے۔
امریکی حکومت کو ایسی خبروں کی تصدیق کرنی چاہیے اور اس بات کی تصدیق کرنی چاہیے کہ آیا طالبان نے میرے بھائی کو القاعدہ کے حوالے کیا ہے یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’طالبان کی حکمرانی کی تاریخ میں ہم نے ایسا کوئی کیس نہیں دیکھا جہاں انہوں نے کسی قیدی کو کسی دوسرے گروپ کے حوالے کیا ہو۔ ہمیں امریکی حکومت یا طالبان کی جانب سے کوئی سرکاری اطلاع نہیں ملی ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ صرف ایک افواہ ہے۔‘
ایف بی آئی نے گذشتہ ماہ ایک نوٹس جاری کیا تھا جس میں حبیبی کی افغانستان میں گمشدگی کے بارے میں معلومات طلب کی گئی تھیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یہ خیال کیا جاتا ہے کہ حبیبی کو طالبان فوج یا سکیورٹی فورسز نے اغوا کر لیا تھا اور ان کی گمشدگی کے بعد سے ان کے متعلق کوئی شنوائی نہیں ہوئی ہے۔‘
احمد شاہ حبیبی نے امریکی حکومت پر زور دیا کہ وہ ان کے بھائی کی رہائی کی کوششوں کو دوگنا کرے اور کہا کہ طالبان نے امریکی قیدیوں کے تبادلے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
طالبان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے صرف دو امریکیوں ریان کاربٹ اور جارج گلیزمین کو ملک کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے رواں سال کے اوائل میں اشارہ دیا تھا کہ وہ گوانتانامو بے میں امریکہ کی جانب سے قید افغانوں کے بدلے انہیں اپنے پاس رکھ رہے ہیں۔
طالبان نے حبیبی کو حراست میں رکھنے سے انکار کرتے ہیں۔
احمد شاہ حبیبی نے کہا کہ ’میرے خیال میں طالبان تین افراد چاہتے ہیں۔ ایک گوانتانامو بے میں اور دو امریکہ میں ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ وہ امریکہ میں کس کا کہہ رہے ہیں، لیکن امریکی حکومت کو میرے بھائی کی رہائی کے لیے مزید کوششیں کرنی ہوں گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں لاپتا ہونے کے بعد سے ان کے اہل خانہ کا حبیبی سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ 'مجھے نہیں معلوم کہ وہ میرے بھائی کو کیوں تسلیم نہیں کر رہے ہیں جب کہ انہوں نے 10 اگست 2022 کو اسے حراست میں لیا تھا۔‘
محمود شاہ حبیبی نیٹو کی حمایت یافتہ افغان حکومت میں شہری ہوا بازی کے ڈائریکٹر اور شہری ہوا بازی کے نائب وزیر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، اس حکومت کو 2021 میں طالبان نے اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا۔
ان کے بھائی نے انڈی پنڈنٹ کو بتایا کہ ’اس بات کا امکان ہے کہ انہیں اس لیے گرفتار کیا گیا کیونکہ انہوں نے گذشتہ حکومت کے ساتھ کام کیا اور 2011 سے 2013 کے درمیان افغانستان میں امریکی سفارت خانے کے ساتھ کام کیا تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکی حکومت کے لیے ان کے کام اور ان کی امریکی شہریت نے انہیں مشکل میں ڈال دیا ہے۔‘
حبیبی کی گرفتاری کی نشاندہی مارچ میں امریکی کانگریس نے ایک قرارداد میں کی تھی جس میں ان کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ان کے بھائی نے اس بات سے انکار کیا کہ محمود شاہ حبیبی کسی بھی طرح سے امریکی حملے میں ملوث تھے جس میں الظواہری مارے گئے تھے۔ انہوں نے کہا، ’ میرے بھائی کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا جب حملہ ہوا تو میرا بھائی افغان سرزمین پر بھی نہیں تھا۔‘
حبیبی نے کہا کہ ان کے بھائی کی کمپنی کے کچھ ملازمین نے انہیں بتایا کہ طالبان نے ان سے ڈرون حملے کے مقام کے قریب دو ٹاوروں کے بارے میں پوچھ گچھ کی ہے۔
ان کا کہنا تھا، ’میرے بھائی نے ایک ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کے ساتھ کام کیا جس کے ٹاور پورے افغانستان میں تھے، مجموعی طور پر تقریبا 600۔ ٹاوروں پر کیمرے ان کی حفاظت کے لیے لگائے گئے تھے نہ کہ عام شہریوں کے لیے۔ یہ فیصلہ میرے بھائی کا نہیں تھا کہ ٹاور یا کیمرے کہاں نصب کیے جائیں۔ وہ ان 1200 ملازمین میں سے صرف ایک تھے، جو مشیر کے طور پر کام کر رہے تھے۔‘
© The Independent