سائنس دانوں کے مطابق ایک ’عجیب‘ قسم کی ’چلتی‘ مچھلی انسانوں کی لاکھوں سال پہلے سیدھے کھڑے ہونے کی صلاحیت کے ارتقا کے بارے میں نئی معلومات فراہم کر رہی ہے۔
سی روبن، ایک ہڈیوں والی مچھلی جو سمندرتہہ میں رہتی ہے، کے ٹانگوں جیسے چھ اعضا ہیں جنہیں یہ سمندری تہہ پر دوڑنے اور کبھی کبھار شکار تلاش کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔
اگرچہ یہ اعضا کی طرح نظر آتی ہیں، لیکن سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ ’ٹانگیں‘ دراصل اس مخلوق کے ہر طرف موجود پروں جیسے پنکھوں کی ایک توسیع ہیں۔
محققین نے اب دریافت کیا ہے کہ یہ سی روبن اپنے ٹانگیں ان ہی جینز کا استعمال کرتے ہوئے بڑھاتے ہیں جو انسانی اعضا کی نمو میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔
انہیں ایک خاص قسم، جسے Prionotus carolinus کہا جاتا ہے، کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ چھونے کے لیے انتہائی حساس ہوتی ہے اور سمندری تہہ میں چھپے شکار کو چکھ سکتی ہے۔
ٹیم کو امید ہے کہ اس کی تحقیقات کے نتائج، جو کہ جرنل کرنٹ بیالوجی میں دو الگ الگ مضامین میں شائع ہوئے، اس بارے میں وضاحت کرنے میں مدد کر سکتے ہیں کہ انسانوں نے تقریباً چھ ملین سال پہلے سیدھا رہ کر چلنا کس طرح سیکھا۔‘
سٹیٹفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ کنگزلی نے کہا: ’زمین کے اوپر رہنے والے جانوروں کا ارتقا مچھلی کے آباؤ اجداد سے ہوا، لہذا انسانی اعضا اور مچھلی کے پنکھوں کے درمیان کسی قسم کا تعلق کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔
’ہمیں خوشی ہوئی کہ جو جین سی روبن کے پنکھوں کے کچھ حصے کو نئی شکل دینے میں مدد کرتا ہے، وہی انسانی ہڈیوں کو کنٹرول کرتا ہے۔‘
سی روبن، جنہیں گورنارڈ بھی کہا جاتا ہے، دنیا بھر کے گرم سمندروں میں پائی جاتی ہیں اور کیڑے اور خول دار جانوروں کھاتی ہیں۔
کچھ اقسام برطانوی پانیوں میں پائی جاتی ہیں، جہاں یہ اکثر غیر ارادی طور پر پکڑی جاتی ہیں اور پھینک دیا جاتا ہے۔
پروفیسر کنگزلی نے کہا کہ انسانی آباؤ اجداد کی طرح جو تقریباً چھ ملین سال پہلے زمین پر زندگی گزارنے کے لیے سیدھے چلنے کے لیے ارتقا پذیر ہوئے، سی روبن نے سمندری تہہ کے ماحول کے مطابق اپنے منفرد جسم تیار کیے۔
انہوں نے کہا: ’دونوں صورتوں میں، چلنے والے ٹانگوں کی نمو کے لیے ہڈیوں کے ڈھانچے، پٹھوں کی نمو، اور حسی اور موٹر کنٹرول میں تبدیلیاں ضروری تھیں۔
یہ ایک ایسی مچھلی ہے جس نے انہی جینز کا استعمال کرتے ہوئے ٹانگیں بنائیں جو ہمارے ہاتھوں اور پاؤں کی نشوونما میں مدد دیتے ہیں، اور پھر ان ٹانگوں کو شکار تلاش کرنے کے لیے استعمال کیا، یہی جینز ہماری زبانیں کھانے کا ذائقہ چکھنے میں استعمال کرتی ہیں - یہ کافی حیرت انگیز ہے۔ پروفیسر نکولس بیلونو
’یہ عمل مچھلیوں اور انسانوں میں کیسے ہوا، اس کی تفصیلات ممکنہ طور پر اگرچہ بہت مختلف ہیں، لیکن ہمیں امید ہے کہ کہ ہم عمومی اصول سیکھ سکیں گے کہ قدرت میں پرانی جینز اور پرانے ڈھانچوں کو کس طرح نئے اوصاف پیدا کرنے کے لیے دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘
ہارورڈ اور اسٹیٹفورڈ یونیورسٹیوں کے محققین نے مشترکہ طور پر ان ’عجیب مخلوقات‘ کا مطالعہ کرنے کا فیصلہ کیا، جب انہیں پتا چلا کہ اکچر دوسری مچھلیاں سی روبنز کے پیچھے ہوتی ہیں کیونکہ چھپے ہوئے شکار کو تلاش کرنے میں ان کی منفرد صلاحیتیں ہیں۔
ہارفورڈ یونیورسٹی کے حیاتیات دان کوری الیڈ نے کہا: ’سی روبنز ایک ایسی مخلوق کی مثال ہیں جن میں بہت ہی غیر معمولی اور بالکل نئی خصوصیت پائی جاتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس ٹیم کو یہ بھی پتہ چلا کہ P. carolinus کے پاؤں میں حساسات موجود ہیں، جنہیں papillae کہا جاتا ہے، جو انہیں چھپے شکار کو تلاش کرنے اور چکھنے میں مدد دیتے ہیں۔
محقیقن کا کہنا ہے کہ یہ ننھے ابھار انسانی زبان پر موجود ذائقہ محسوس کرنے والے بُدز کی طرح کام کرتے ہیں۔ ۔
ہمیں خوشی ہوئی کہ جو جین سی روبن کے پنکھوں کے کچھ حصے کو نئی شکل دینے میں مدد کرتا ہے، وہی انسانی ہڈیوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ پروفیسر ڈیوڈ کنگزلی نکولس بیلونو، ہارورڈ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر نے کہا: ’یہ ایک ایسی مچھلی ہے جو ان ہی جینز کا استعمال کرتے ہوئے ٹانگیں بناتی ہے جو انسانی اعضا کی نمو میں کردار ادا کرتے ہیں اور پھر ان ٹانگوں کو شکار تلاش کرنے کے لیے نئے طریقے سے استعمال کرتی ہے - یہ واقعی دلچسپ ہے۔‘
لیکن انہیں یہ بھی پتا چلا کہ ایک دوسری قسم، جسے Prionotus evolans کہا جاتا ہے، میں papillae نہیں ہیں، اور وہ اپنی ٹانگوں کو حرکت کے لیے استعمال کرتے ہیں نہ کہ شکار کرنے کے لیے۔
محققین کا کہنا تھا کہ P. carolinus کی ٹانگیں شکل میں زیادہ بیلچہ نما تھیں جبکہ P. evolans کی شکل راڈ کی طرح ہے۔
پروفیسر کنگزلی نے کہا: ’ہم اصل میں ان ٹانگوں سے حیران ہوئے جو تمام سی روبنز کے ساتھ مشترک ہیں اور انہیں زیادہ تر دوسری مچھلیوں سے مختلف بناتے ہیں۔
’ہمیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ سی رابنز کی ٹانگوں میں پائی جانے والی حسی ساختیں ایک دوسرے سے کتنی مختلف ہیں۔‘
پروفیسر کنگزلی نے کہا کہ اگلے مراحل کے طور پر، ٹیم یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ سی رابنز کی ٹانگوں میں یہ حسی صلاحیتیں کیسے ارتقا پذیر ہوئیں۔
© The Independent