ہر سال 28 ستمبر کو ’ورلڈ نیوز ڈے‘ منایا جاتا ہے۔ اس دن صحافت کے حوالے سے بیانات دیے جاتے ہیں اور آزادی صحافت کے علم بردار ہونے کے دعوے کیے جاتے ہیں، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔
ملک کے بڑے شہروں کو چھوڑ دیں جہاں پر اینکرز کا راج ہے۔ اگر اینکرز نہیں تو یو ٹیوبرز کی بادشاہت ہے۔ ایک صحافی جو سارا دن لگا کر خبر نکالتا ہے اور اسے صحافتی اقدار کے مطابق کنفرم کرواتا ہے، تب تک یوٹیوبرز اپنے دماغی اختراع کا استعمال کرتے ہوئے اسی خبر کو کیا سے کیا بنا دیتے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ لوگ اس صحافی کی خبر پر نہیں بلکہ یوٹیوبر کی خبر کو مستند سمجھتے ہیں۔
بڑے شہروں سے باہر نکلیں تو صحافت اور صحافیوں کی تعریف ہی کچھ اور ہے۔ میڈیا ادارے تنخواہ تو دور کی بات ان صحافیوں کو اعزازیہ بھی نہیں دیتے۔ چھوٹے چھوٹے شہروں میں صحافیوں سے بات ہوئی تو معلوم چلا کہ ایسے صحافیوں کی تعداد کافی زیادہ ہے جو مفت میں میڈیا اداروں کے لیے کام کر رہے ہیں۔
ان صحافیوں کے بقول نہ تو انہیں کسی قسم کی ٹریننگ دی جاتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کے آلات دیے جاتے ہیں، جن سے ان کی صحافت میں آسانی ہو سکے۔ کچھ صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہیں تنخواہ ملنا تو ایک خواب ہے ہی، الٹا ان کے ادارے ان سے سپلیمنٹ اور اشتہارات لانے کے لیے کہتے ہیں۔
یہ وہی صحافی ہیں جو ملک کے بڑے شہروں کے صحافیوں کے لیے آواز اٹھانے میں ہچکچاتے نہیں۔ اسلام آباد، کراچی، لاہور، کوئٹہ اور پشاور سمیت دیگر بڑے شہروں میں صحافیوں کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی ہو تو یہ لوگ بھی اپنے اپنے اضلاع میں باہر نکل آتے اور مظاہرے کرتے ہیں، لیکن جب انہیں کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو بڑے بڑے شہروں کے صحافی ان کے لیے آواز نہیں اٹھاتے۔
اس کی ایک بڑی وجہ صحافیوں کی دھڑے بازی ہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے چار دھڑے بنے ہوئے ہیں اور یہ دھڑے ایک ساتھ کام کرنا تو دور کی بات ایک دوسرے سے بات کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں اور حال ہی میں معلوم ہوا کہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے ایک دھڑے میں سے ایک اور دھڑا نکل آیا ہے۔
اگر اتنی تفریق ہے اور مل کر صحافیوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنا ناممکنات میں سے ہے تو پھر صحافیوں کے لیے کون لڑے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہمارے ملک میں خواتین صحافیوں کو نہ صرف اپنے ساتھی مرد صحافیوں سے اس قسم کی باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ ان کو صحافتی اداروں سے بھی تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حال ہی میں ایک محفل میں صحافیوں سے ملاقات ہوئی جن میں خواتین صحافی بھی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ایک طرف جہاں پریس کلبوں میں جانے کن کن پیشوں سے وابستہ لوگ رکن بنے ہوئے ہیں، انہی پریس کلبوں میں خواتین صحافیوں کو ممبر شپ دینے میں تاخیر کی جاتی ہے۔
اگر پریس کلب ہی خواتین صحافیوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کریں گے تو پھر وہ کیا کریں۔ خواتین صحافی پرعزم ہیں کہ وہ اپنی جگہ بنائیں گی اور جو جگہ ان کے لیے تنگ کی جا رہی ہے، اس کے خلاف کوششیں کرتی رہیں گی، لیکن ان صحافیوں کو صحافتی تنظیموں کی مدد درکار ہے اور ایک منظم نظام کی ضرورت ہے، جس کے تحت خواتین صحافی کے لیے بھی ممبر شپ کے لیے وہی شرائط اور آسانیاں ہوں جو کسی مرد صحافی کے لیے ہیں۔
یہ صرف دو مشکلات ہیں، جنہیں ادارے یا صحافتی تنظیموں کے ذریعے باآسانی حل کیا جا سکتا ہے۔
اداروں کو اپنی سوچ تبدیل کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ دوسری جانب صحافتی تنظیموں اور پریس کلبوں کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ مبینہ طور پر مرد صحافی کو ممبر شپ جلدی مل جائے اور خاتون صحافی چاہے مرد صحافی سے کہیں زیادہ قابل اور اہل ہوں، انہیں ممبر شپ بعد میں ملے۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دنیا بھر میں زوال کی جانب گامزن ہے اور اسی لیے بڑے بڑے اینکرز اور صحافی اپنے اپنے یوٹیوب چینل کھول رہے ہیں، لیکن صوبائی دارالحکومتوں میں بیٹھے صحافی انہی چھوٹے صحافیوں سے معلومات حاصل کرتے ہیں لیکن ان کے حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھا سکتے۔
عالمی دنوں کو منانے کا مطلب بیانات دینا نہیں ہوتا یا سیمینار کرنا نہیں ہوتا بلکہ عملی کام کرنا ہوتا ہے۔ امید ہے شاید اگلے سال ورلڈ نیوز ڈے پر عملی کاموں پر بات ہوگی۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔