عشق میں ناکام لوگوں کو دیکھ کے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ جوگی بنے پھرتے ہیں، تن بدن کا ہوش نہیں، لیکن وہ سب وقتی ہوتا ہے، جوگ طبیعت میں ہوتا ہے۔
جوگی ایسا ہے جیسے چوک میں بیٹھا ہو مگر اکیلا، سامان کے ڈھیر لگے ہوں لیکن جانے کی باری آئے تو کندھے پہ بس ایک تھیلا، کسی کی ڈانٹ پھٹکار سے اس کو مطلب نہ ہو لیکن پیار بھی کسی کا اثر نہ کرتا ہو، اپنی ذات سے اپنی محبت بھی نہ کرتی ہو اثر اس پہ ۔۔۔ وہ بس بے نیاز ہو چکا ہو، سب رشتوں سے، محبتوں سے، دوستیوں سے، ضرورتوں سے، دکھاووں سے، ہر چیز سے، اور اس سب کا اسے کوئی احساس برتری بھی نہ ہو، کہ بھئی ہم تو بے غم ہیں، ایسا ہونا مشکل نہیں ہے کیا؟
ہمارے جوگی اپنے حلیے پہ بہت توجہ دیتے ہیں لیکن اندر سے خالی ہوتے ہیں، میری شکل دیکھ لیں، ایسا حلیہ بنا کے سمجھتا تھا کہ میں فقیر ہو گیا، جوگی بن گیا، لیکن یہ غلط فہمی زیادہ چل نہیں سکی، جوگیوں کا تو گزارا ہی ایک پیالے پر ہو جاتا ہے، اسی میں کھایا، اسی کو دھو کے پانی پیا، واپس تھیلے میں ڈال دیا، اور میں؟ میری کائنات تو سامان سے، زنجیروں سے بھری پڑی ہے۔ تو میں، اس کوالیفیکیشن پہ نہیں اتر سکا پورا۔
ابن انشا بڑے کمال شاعر تھے، جوگ کے نقشے جتنے انہوں نے کھینچے ہیں شاید ہی کوئی ہو جو اس شدت سے ایسی کیفیت کو بیان کر پایا ہو۔
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب؟ جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا؟
انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا!
وہ جوگ سمجھتے تھے، گیانی آدمی تھے لیکن جوگی نہیں تھے، جوگی ہونا بڑا مہنگا سودا ہے اور اس کی سزا آس پاس والے زیادہ بھگت رہے ہوتے ہیں، جوگی کی جانے بلا، وہ تو بے نیاز ہوتا ہے بابا، اسے کیا خبر کہ شہر کہاں ہے اور دل لگانا بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
انشا بار بار یاد آ رہے ہیں اور میں آنے دے رہا ہوں، سناٹا، سنسانیت، خاموشی، سکون، فقیری اور روگ کسی طبیعت میں رچے ہوں لیکن بندہ دنیا میں بھی رہنے پہ مجبور ہو تو بس اس طرح کے شعر اترتے ہیں؛
اپنے ہمراہ جو آتے ہو، اِدھر سے پہلے
دشت پڑتا ہے میاں عشق میں، گھر سے پہلے (دشت مطلب صحرا)
چل دیے اُٹھ کے سوئے وفا، کوئے حبیب (مطلب یار کی گلی کو چل دیے منہ اٹھا کے)
پوچھ لینا تھا کسی خاک بسر سے، پہلے (خاک بسر، جو بس مٹی پر ہی پڑا رہتا ہو)
عشق پہلے بھی کیا، ہجر کا غم بھی دیکھا
اتنے تڑپے ہیں، نہ گھبرائے، نہ ترسے پہلے
جی بہلتا ہی نہیں اب کوئی ساعت، کوئی پل (ساعت مطلب لمحہ سمجھ لیجے)
رات ڈھلتی ہی نہیں چار پہر سے پہلے (دن اور رات میں کُل ملا کے آٹھ پہر ہوتے ہیں)
ہم کسی دَر پہ ٹھٹکے، نہ کہیں دستک دی
سینکڑوں دَر تھے مری جان تیرے دَر سے پہلے (ہائے ہائے)
چاند سے آنکھ ملی، جی کا اُجالا جاگا
ہم کو سو بار ہوئی صبح سَحر سے پہلے
کارپوریٹ دنیا میں اتنا وقت کسی کے پاس کب ہوتا ہے کہ یہ سب باتیں سوچے، رک جائے، ان پہ غور کرے، یہاں تو سانس بھی گھڑی دیکھ کے لینی ہوتی ہے، اس میں کون سا جوگ اور کدھر کا جوگی، ہاں، جوگ لینے کو دل بہت کرتا ہے، آپ کا، میرا، ابن انشا کا ۔۔۔ فرق بس یہ ہے کہ انشا جب کہنے پہ آتے تھے تو انتہا کر دیتے تھے۔
کوچے کو تیرے چھوڑ کر جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل ترے، پربت ترے، بستی تری، صحرا ترا
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب دیکھ لیں اپنا اپنا، چاہیں تو روزی روٹی کی فکر رکھ لیں یہاں، کہ اس سے آزاد ہو کے بندہ کہاں جائے، خاک جوگ پالے، اور چاہیں تو وہی روگ والی کیفیت کہہ لیں اسے، کہ دل تو کرتا ہے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے بھاگ جائیں لیکن جائیں کہاں؟ توُ چاہیے ہے، تُو ہے بھی ہر جگہ اور تُو ملتا بھی نہیں ہے، کس آسرے پہ جوگی بنیں؟ جنگل ترے، پہاڑ تیرے، شہر تیرے اور صحرا بھی تیرے، ہر جگہ تو نے ہی یاد آنا ہے تو بے نیازی تو نہ ہوئی، وہ نہ ہوئی تو کیا جوگ اور کیا وہ جگہ چھوڑ کر بھاگنا کہ جہاں خیر سے تُو آباد ہے، شاد ہے!
شاید اس دنیا میں ہر وہ بندہ اصل جوگی ہے جو موجودہ حالات میں خود کو ریلیٹ نہیں کر پاتا، منظر میں رہنا چاہتا ہے لیکن رنگ اسے پھیکے لگتے ہیں، بلکہ رنگ ہوں یا نہ ہوں اسے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہنسنا چاہتا ہے لیکن ہنس نہیں سکتا کیوں کہ رونے کے لیے تو اللہ میاں نے رات بنائی ہے، دن بہرحال کاٹنا ہوتا ہے، قسمت کاٹنی ہوتی ہے بلکہ زندگی کاٹنی ہوتی ہے۔
ایک چیز جو سب سے زیادہ ضروری ہے جوگی ہونے کے لیے وہ سوچ ہے، عقل ہے۔ اگر انسان سوچ سکتا ہے، دماغ کام کرتا ہے تو وہ بے غم نہیں رہ سکتا، غم ہے تو روگ ہے اور روگ ہے تو سوچنی والی سب روحیں بالاخر جوگی ہو کر ہی ٹھنڈی ہوتی ہوں گی، لیکن بات پھر وہی کہ اس روزگار میں، آج کل کے دور میں، کوئی کتنا وقت نکال سکتا ہے سوچنے کے لیے بھی؟
اس کیفیت کے لیے بھی انشا کے پاس مال موجود ہے، انجوائے کریں اور مجھے اجازت دیں؛
دفتر سے اٹھے، کیفے میں گئے، کچھ شعر کہے‘ کچھ کافی پی
پوچھو جو معاش کا انشاؔ جی یوں اپنا گزارا ہوتا ہے۔