بولنے والی شاہی مینا چرانے کا قصہ ختم کہاں ہوا

ہر کہانی میں ایک مرکزی کردار ہوتا ہے، ’پری ناز اور پرندے‘ میں کہانی ساری گھومتی ہے اس سوال کے گرد کہ شاہی مینا چُرانے والے کالے خان کے ساتھ آخر ایسا کیا ہوا کہ جو بندہ جانتا بھی ہے وہ ایک آہ بھرتا ہے اور خاموش ہو جاتا ہے۔

لکھنئو میں ایک پرانی ڈیوڑھی کا منظر ہے؛ 

’میاں کے باپ اب اس دنیا میں نہیں ہیں، مسہری پر اپنے چاروں طرف کتابوں کا کنواں بنا لیتے تھے، اسی کے اندر سے پکارتے ۔۔۔ مرزا ۔۔۔ اور ہم کہیں بھی ہوں ان کی آواز سن لیتے اور فوراً ان کے پاس پہنچ جاتے۔‘

اپنے نانا کے بارے میں ایک لڑکی جاننا چاہتی ہے کہ ان کا انتقال کن حالات میں ہوا، نانا جنہوں نے اپنی بیٹی کی محبت میں شاہی باغ سے ایک مینا چرا لی تھی، بیٹی جو بن ماں کے تھی، بادشاہ جو بجھتی شمع کے جیسے تھے، کہلاتے سلطان عالم تھے،  مینا جو پہاڑی تھی اور بولتی تھی وہ سب جو اسے سکھایا جاتا تھا، چرائی گئی مینا بیٹی فلک آرا کو بخش دی جاتی ہے، معاف بھی کر دیا جاتا ہے نانا کالے خان کو، لیکن بعد میں ان کی وفات تک حالات کیا بنتے ہیں، اس پہ ایک پردہ ہے۔

اب بیس بائیس برس کی فرش آرا ہیں جو بیٹی ہیں فلک آرا کی، فلک آرا جن کے لیے ان کے باپ کالے خان نے بولنے والی مینا چرائی تھی، فرش آرا ہاتھ سے تیار کیے ہوئے نفیس قسم کے پنجرے بیچنے بازار میں ایک پرندے والے کے پاس آئی ہیں ۔۔۔ پنجرے ایسے کہ اس سے پہلے بازار میں کبھی دیکھے نہیں گئے، ادھر سے یہ نئی کہانی شروع ہوتی ہے۔

فرش آرا بالاخر انہیں ڈھونڈ لیتی ہیں اور ان کے گھر پہنچتی ہیں جنہوں نے کالے خان یعنی ان کے نانا کی پوری داستان لکھی تھی لیکن وہ قصہ گو اب کافی بیمار ہیں اور لوگوں سے نہیں ملتے۔ دہلیز پہ ان کے ایک خاندانی نوکر ملتے ہیں جو فرش آرا کو بیمار قصہ گو کے والد کا بیان دے رہے ہیں جو اپنے چاروں طرف کتابوں کا کنواں بنا لیتے تھے۔ 

پرندے ہیں، چڑیوں میناؤں کی کہانی ہے، درختوں کا ذکر ہے، پانیوں کی بات ہے، پرانی کھنڈر عمارتیں اور ان میں رہنے والے کبوتر ہیں، غدر کے بعد کا لکھنو ہے، ایک سادھو قسم کے بزرگ ہیں جن کے ہاتھ سے چڑیاں دانہ کھاتی ہیں اور ان سب کے درمیان قصہ جو ہے وہ چلتا رہا ہے۔ 

جیسے گانے میں ایک خیال گائیکی ہوتی ہے، اسی طرح اگر لکھنے والوں میں کوئی خیال نگاری سے کہانی بُن دے تو وہ نیئر مسعود ہوا کرتے تھے۔ ایسا قصہ جو ختم ہونے کے بعد ساری عمر آپ کی ذات کا حصہ بن جاتا تھا۔ ان کے والد بہت عالم آدمی تھے، مسعود حسن رضوی ادیب ۔۔۔ تو وہ جو کنواں بنا کر کتابوں کا عین اس کے درمیان بیٹھ رہتے تھے بزرگ، مسعود حسن رضوی ادیب اور خود نیئر مسعود بھی کچھ ایسی ہی شخصیت تھے۔ یہ کہانی بھی ان کی ایک کتاب ’طاؤس چمن کی مینا‘ کا سمجھ لیجے اگلا حصہ ہے، جیسے آج کل سیکوئل کہتے ہیں نیٹ فلکس پر کسی سیزن کے اگلے حصے کو، تو یہ سیکوئل ہے اس کتاب کا۔ 

نئیر مسعود نے لیکن بہت کم لکھا، جتنا کچھ موجود ہے اسے بار بار پڑھ کے بھی دل چاہتا ہے کہ ہوتا، کچھ تو اور ہوتا۔ کیفیت یوں سمجھ لیں کہ گانے کانوں میں بج رہے ہوں اور فلم ختم جائے ۔۔۔ اب کیا کریں؟ 

گانے ہی سے سمجھتے ہیں، گلوکاری میں شجرہ اور گانے والے کا سٹائل جو ہے وہ گھرانے سے دیکھا جاتا ہے جیسے فلاں صاحب جو ہیں وہ  شام چوراسی گھرانے کے ہیں، تو پتہ چل جائے گا کہ ان کی بندشیں کیا ہیں، کون سے راگ ہیں، باج ہیں، لیکن ۔۔۔ گھرانے کے لیے اس خاندان سے نسبی تعلق شرط نہیں، باہر سے کوئی شاگرد بھی اُس درجے پر پہنچ جائے تو گھرانے کا حصہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح فرش آرا کی کہانی لکھنے والے انیس اشفاق جو ہیں انہیں آپ اس مسعود گھرانے کی اگلی لڑی سمجھ لیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کی پہلی کتاب دکھیارے میں نے پڑھی، ایسا لگا کہ نئیر مسعود جیسا لہجہ ہے، قصہ کہنے کے بعد نام، نمبر اور مقام عین اُسی طرح چن چن کے غائب کیے گئے ہیں کہ لگے جیسے خواب کا بیان ہے لیکن کہانی جاگتے میں دِکھ رہی ہے۔

اس وقت فرش آرا کی جو کہانی ہے اس کا نام انیس اشفاق نے ’پری ناز اور پرندے‘ رکھا ہے۔ انتظار حسین اور قرۃ العین حیدر کے یہاں کرداروں کے نام ایسے ہوتے تھے جیسے چلتی پھرتی سڑک پہ تعزیے کھڑے ہوں۔ انیس، دبیر، شوق، میر حسن وغیرہ کہیں نہ کہیں جھلک دکھاتے تھے اور مجموعی طور پہ ہر کہانی کے پیچھے ماتم کی الگ ایک چادر تنی ہوتی تھی۔ تو جیسے تبرک کے طور پہ وہی چادر کوئی سنبھال لے، انیس اشفاق ایسے لکھتے ہیں۔ ایک جملہ دیکھیے؛ ’جب چاند آسمان پر آتا ہے تو حُسین آبدار کس طرف جاتا ہے۔‘ اب وہ رباعی یاد کیجے؛ ’خورشید سرشام کہاں جاتا ہے، روشن ہے دبیر پر کہ جہاں جاتا ہے۔‘ تو بس یہ قصہ ہے!

ہر کہانی میں ایک مرکزی کردار ہوتا ہے، ’پری ناز اور پرندے‘ میں کہانی ساری گھومتی ہے اس سوال کے گرد کہ شاہی مینا چُرانے والے کالے خان کے ساتھ آخر ایسا کیا ہوا کہ جو بندہ جانتا بھی ہے وہ ایک آہ بھرتا ہے اور خاموش ہو جاتا ہے۔ اس سوال کا تذکرہ اتنا زیادہ ہے کہ بعض اوقات دل چاہتا ہے چھلانگ لگا کے بندہ درمیان میں پہنچے اور جواب مل جائے تو واپس آ کے سکون سے پوری کہانی پڑھے۔ 

287 صفحے کی یہ کتاب ایک شاگرد کی طرف سے اپنے استاد کو ایسا خراج ہے کہ استاد کو اگر اس کی زندگی میں علم ہو جائے تو وہ خود وصیت کرے کہ بابا تعویز میں بس ہر آنے والے کے لیے یہ کتاب جڑ دینا، باقی پاک نام ہی رہنے والا ہے!

(یہ کتاب 2018 میں انڈیا سے چھپی اور اپریل 2024 میں اسے بک کارنر جہلم، پاکستان کے زیر اہتمام شائع کیا گیا۔)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ