پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے بدھ کو سپریم کورٹ کے جج جسٹس یحیٰ آفریدی کی بطور چیف جسٹس آف پاکستان تعیناتی کی منظوری دے دی۔
صدر سے منظوری کے بعد جسٹس یحیٰ آفریدی 26 اکتوبر سے تین سال کے لیے بطور چیف جسٹس آف پاکستان اپنے ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔
ایوان صدر سے جاری بیان کے مطابق صدر آصف علی زرداری نے تعیناتی آئین کے آرٹیکل 175 اے (3)، 177 اور 179 کے تحت کی ہے۔
صدر سے منظوری کے بعد وزارت قانون کی جانب سے نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔
خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس نامزد کر دیا: وزیر قانون
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے تصدیق کی ہے کہ چیف جسٹس کی نامزدگی کے لیے خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے جسٹس یحیی آفریدی کو عہدے کے لیے نامزد کر دیا ہے۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو میں وزیر قانون نے کہا کہ ’اب نامزد چیف جسٹس کا نام وزیراعظم پاکستان کو بھجوایا جائے گا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ وزیراعظم اپنے دستخط کے ساتھ چیف جسٹس کے نام کی سمری حتمی منظوری کے لیے صدر پاکستان کو بھیجیں گے۔
’آخر میں وفاقی وزارت قانون نوٹیفیکیشن جاری کرے گی۔‘
خصوصی کمیٹی کا اجلاس وقفے کے بعد دوبارہ شروع
خصوصی کمیٹی کا اجلاس وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔
سنی اتحاد کونسل/پی ٹی آئی اراکین نے دوبارہ درخواست پر بھی شرکت نہیں کی۔ اس وقت کمیٹی کی سربراہی سپیشل سیکرٹری کر رہے ہیں۔ کمیٹی میں نو اراکین موجود ہیں۔
پہلے نام دیے بعد میں خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں عدم شرکت کا فیصلہ کیا: بیرسٹر گوہر
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ ’ہماری سیاسی کمیٹی نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ ہم خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔ سپیشل کمیٹی نے چار رکنی سب کمیٹی بنائی تھی جس نے ہم نے سپیکر چیمبر میں ملاقات کی۔
’انہوں نے ہم سے شرکت کی درخواست کی لیکن ہم نے انہیں کہا کہ ہمارا اصولی موقف ہے کہ یہ جو ترامیم ہوئی ہیں وہ غیر آئینی ہیں۔ اس لیے اس غیر آئینی ترامیم کے تحت بننے والی کمیٹی کا ہم حصہ نہیں بنیں گے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کے سوال کہ اگر کمیٹی کا حصہ نہیں بننا تھا تو اس کے لیے نام کیوں بھجوائے کے جواب میں بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ ’نام دینا لازم نہیں تھے انہوں نے ہمیں وقت دیا تھا کہ نام تجویز کریں۔
’اگر ہم نام نہ دیتے اور ہماری سیاسی کمیٹی یہ فیصلہ کرتی کہ ہم خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کریں گے تو پھر ہم شرکت کیسے کرتے۔ نام نہ دیتے تو ہم بلکل آؤٹ ہو جاتے۔ اس لیے نام پہلے دینے تھے اور شرکت کا فیصلہ بعد میں کرنا تھا۔‘
اراکین کمیٹی کی سپیکر قومی اسمبلی سے ملاقات، سنی اتحاد کونسل کا شرکت نہ کرنے کا فیصلہ
سنی اتحاد کونسل کے ممبران نے آج کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کی جس کے باعث کمیٹی نے احسن اقبال، رعنا انصر، راجہ پرویز اشرف اور کامران مرتضیٰ پر مشتمل ایک سب کمیٹی بنائی۔
اس سب کمیٹی کو سنی اتحاد کونسل کے ممبران سے ملاقات کر کے انہیں اجلاس میں شرکت کے لیے قائل کرنے کا کہا گیا۔
سب کمیٹی نے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے ملنے کی درخواست کی۔
سپیکر سردار ایاز صادق کے چیمبر میں اب سے کچھ دیر پہلے سب کمیٹی کے ممبران اور سنی اتحاد کونسل کے ممبران کے درمیان ملاقات ہوئی۔
سپیکر اسمبلی کے چیمبر میں ہونے والی ملاقات میں سب کمیٹی کے ممبران اور بیرسٹر گوہر علی خان نے شرکت کی۔
ایاز صادق اور کمیٹی کی ممبران کی طرف سے سنی اتحاد کونسل کو کمیٹی میں شرکت کی دعوت دی گئی مگر بیرسٹر گوہر علی خان نے بتایا کہ ’ان کی پارٹی کی سیاسی کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس کمیٹی کے اجلاسوں میں شرکت نہیں کریں گے۔‘
سنی اتحاد کے اراکین کا انتظار، ساڑھے آٹھ بجے تک وقفہ
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ سنی اتحاد کے اراکین کے آنے تک کمیٹی کے اجلاس میں وقفہ کر دیا ہے، اب اجلاس ساڑھے آٹھ بجے ہو گا۔
سنی اتحاد کونسل کو منانے کے لیے احسن اقبال، راجہ پرویز اشرف، رعنا انصار اور کامران مرتضیٰ کو بھیجا جائے گا۔ سپیکر قومی اسمبلی کو بھی درخواست کی گئی ہے کہ وہ بھی سنی اتحاد کے اراکین سے بات کریں۔
وزیر قانون نے کہا کہ ’ہم جمہوری لوگ ہیں۔ آئین کے مطابق کمیٹی اجلاس جاری رہے گا، ہم جمہوریت کے حسن کو برقرار رکھیں گے۔‘
سیکریٹری قانون ججز کے پروفائل سمیت موجود
سیکریٹری قانون و انصاف راجہ نعیم اکبر بھی تین سینیئر ججز کے ناموں اور پروفائل کے ساتھ اجلاس میں موجود ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی و وفاقی وزیر احسن اقبال سے انڈپینڈنٹ اردو نے سوال پوچھا کہ ’کیا آج معاملات طے ہو جائیں گے؟ کیا نام سامنے آئے ہیں؟‘
تو انہوں نے کہا کہ ’جی امید کرتے ہیں۔ لیکن ناموں کے حوالے سے کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔ یہ کمیٹی میں بحث کر کے طے کیا جائے گا۔‘
پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس شروع
چیف جسٹس کی تقرری کے لیے پارلیمانی کمیٹی کا ان کیمرہ اجلاس پارلیمنٹ میں شروع ہو گیا ہے۔
سنی اتحاد کونسل/ پی ٹی آئی کے تینوں اراکین اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ اس وقت مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جے یو آئی ایف اور ایم کیو ایم کے اراکین پر مشتمل نو رکنی کمیٹی اجلاس میں موجود ہے۔
خصوصی کمیٹی کو سپریم کورٹ کے تین سینیئر ججوں کے نام اور تفصیلات پہلے سے ہی موصول ہو چکی ہیں۔
12 رکنی خصوصی کمیٹی کی تشکیل
چیف جسٹس کی تقرری کی غرض سے آئین کے تحت بننے والی خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں شامل کرنے کے لیے پارلیمان کے ایوان زیریں (قومی اسمبلی) کے اراکین کے ناموں پر فیصلے کے ساتھ ہی 12 رکنی کمیٹی مکمل ہو گئی۔
سپیکر قومی اسمبلی نے پیر کی رات 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا، جس میں کمیٹی اراکین کے نام درج ہیں۔
نوٹیفیکیشن کے مطابق قومی اسمبلی سے خصوصی کمیٹی میں پیپلز پارٹی کے نوید قمر اور راجہ پرویز اشرف، نون لیگ کے خواجہ آصف، احسن اقبال اور شائستہ پرویز، سنی اتحاد کونسل کے بیرسٹر گوہر خان اور حامد رضا کے نام شامل ہیں، جب کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رعنا انصار کمیٹی کے رکن ہوں گے۔
سینیٹ سے پیپلز پارٹی کے فاروق ایچ نائیک، ن لیگ سے اعظم نذیر تارڑ، جے یو آئی ف سے کامران مرتضیٰ جبکہ پی ٹی آئی سے بیرسٹر علی ظفر کو کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے شامل ہیں۔
مذکورہ کمیٹی آئین کے آرٹیکل 175 اے (3) کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین سینیئر ترین ججوں میں سے کسی ایک کا چیف جسٹس کے طور دو تہائی اکثریت سے نام تجویز کرے گی۔
پارلیمانی کمیٹی کے لیے چار سینیٹر کے نام سامنے آ گئے
چیف جسٹس کی تقرری کے لیے تشکیل پانے والی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے لیے ایوان بالا یعنی سینیٹ کو پارلیمانی لیڈرز کی جانب سے چار نام موصول ہو گئے جو انہوں نے پیر کو سپیکر قومی اسمبلی کو بھجوا دیے ہیں۔
سینیٹ سے پیپلز پارٹی کے فاروق ایچ نائیک، ن لیگ سے اعظم نذیر تارڑ، جے یو آئی ف سے کامران مرتضیٰ جبکہ پی ٹی آئی سے بیرسٹر علی ظفر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے رکن ہوں گے۔
خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں متناسب نمائندگی کے حساب سے پارلیمانی کمیٹی میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، سنی اتحاد کونسل، ایم کیو ایم اور جے یو آئی ف کی نمائندگی ہو گی۔ باقی کسی جماعت کا کوئی رکن پارلیمانی کمیٹی میں شامل نہیں ہو گا۔
حکمران جماعت مسلم لیگ ن کو پارلیمانی کمیٹی میں برتری ہو گی۔ مسلم لیگ ن کے قومی اسمبلی سے تین اور سینیٹ سے ایک رکن پارلیمانی کمیٹی میں شامل ہو گا۔
پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی سے دو اور سینیٹ سے ایک رکن کمیٹی میں شامل ہوگا۔ سنی اتحاد کونسل کے بھی قومی اسمبلی سے دو اور سینیٹ سے ایک رکن شامل ہو گا۔ جبکہ ایم کیو ایم کے ایک رکن کو قومی اسمبلی سے نمائندگی ملے گی اور جے یو آئی ف کے ایک رکن کو سینیٹ سے نمائندگی ملے گی۔
کمیٹی کے لیے قومی اسمبلی ارکان کے نام طلب
پاکستان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے پیر کو پارلیمانی سیاسی پارٹی کے رہنماؤں سے ان کی قومی اسمبلی میں نمائندگی کے تناسب کے حساب سے اراکین کے نام طلب کر لیے ہیں تاکہ چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کے لیے خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جا سکے۔
آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد چیف جسٹس کی تقرری مقررہ وقت پر ممکن ہوگی؟
وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد پیر کی صبح 26ویں آئینی ترمیم باقاعدہ آئین کا حصہ بنانے کے لیے صدر آصف علی زرداری نے اس کی توثیق کر دی ہے۔ اس کے بعد سوال یہ ہے کہ آیا 26 اکتوبر کے قلیل وقت تک کیا نئے چیف جسٹس کی تقرری ہو جائے گی؟
26ویں آئینی ترمیم کے نفاذ کے بعد چیف جسٹس کی مدت اور تقرری کے طریقہ کار میں نمایاں تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔ اس ترمیم کے بعد موجودہ چیف جسٹس کی نامزدگی 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی موجودہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے تین روز پہلے کرے گی۔
ترمیم کی رو سے پارلیمانی کمیٹی دوتہائی اکثریت سے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے 14 روز قبل نامزدگی کیا کرے گی جبکہ ترمیم کی منظوری کے بعد موجودہ پہلی نامزدگی چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے تین روز قبل ہو گی۔
25 اکتوبر موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے عہدے کی مدت کا آخری دن ہے۔ 26 اکتوبر سے نئے چیف جسٹس عہدے کا حلف اٹھائیں گے، اس صورت حال میں قانونی ماہرین کے مطابق نئے چیف جسٹس کی نامزدگی 22 یا 23 اکتوبر کو ہو جانی چاہیے۔
خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے 12 ارکان میں قومی اسمبلی کے آٹھ اور سینیٹ کے چار ارکان ہوں گے۔ نیا چیف جسٹس سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز میں سے منتخب ہو گا۔ نامزد جج کے انکار کی صورت میں باقی سینیئر ججز میں سے کسی کو نامزد کیا جا سکے گا۔
ترمیم کے تحت پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے کے خلاف کوئی سوال نہیں کیا جا سکے گا۔ چیف جسٹس کی مدت تین سال ہو گی، ماسوائے یہ کہ وہ استعفیٰ دے، 65 سال کا ہو جائے یا برطرف کیا جائے۔
یہ ترامیم قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ سے قبل متعارف کروائی گئی ہیں، تو کیا وہ عہدے کی مدت میں دو سال مزید توسیع لینے کے اہل ہیں؟
انڈپینڈنٹ اردو کے اس سوال کے جواب میں وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ ’واضح کر دوں کہ چیف جسٹس کے لیے عمر کی آخری حد 65 برس ہی رہے گی۔ اس لیے کوئی اگر 64 سال کی عمر میں چیف جسٹس بنے گا تو 65 برس میں ریٹائر ہو گا۔ عمر کی حد میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ لیکن اگر کوئی 60 سال کی عمر میں چیف جسٹس بنے گا تو 63 برس میں عہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد ریٹائرڈ تصور ہو گا اور اسے عمر کے دو سال مزید نہیں ملیں گے۔‘
خصوصی پارلیمانی کمیٹی کب اور کیسے تشکیل پائے گی؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نئے چیف جسٹس کی تقرری میں پارلیمانی کمیٹی کا کردار اہم ہوگا۔ سرکاری ذرائع سے میسر معلومات کے مطابق صدر پاکستان کے دستخط کے بعد جب 26 ویں ترمیم گزٹ آف پاکستان کا حصہ بن جائے گی تو نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی تمام پارلیمانی سربراہوں کو خط لکھ کر امیدواروں کے نام مانگیں گے جن پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ ماہرین کے مطابق چونکہ نئے چیف جسٹس کی تقرری میں وقت تھوڑا رہ گیا ہے لہذا نہیں معلوم کہ یہ پارلیمانی کمیٹی جلدی میں اتفاق رائے سے بن پائے گی یا نہیں۔
پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کے بعد چیف جسٹس 22 اکتوبر رات 12 بجے تک تین سینیئر ترین نام خصوصی پارلیمانی کمیٹی کو بھیجنے کے پابند ہیں۔ جن پر غور کرنے کے بعد پارلیمانی کمیٹی ایک نام کو نامزد کر کے نام وزیراعظم پاکستان کو بھجوائے گی۔ وزیراعظم چیف جسٹس کے تقرر کے لیے ایڈوائس صدر پاکستان کو حتمی منظوری کے لیے بھیجیں گے۔ چیف جسٹس بذریعہ وزارت قانون نام پارلیمانی کمیٹی کو بھجوائیں گے۔
کمیٹی اپنے پہلے اجلاس میں تین سینیئر ترین ججوں میں سے کسی ایک کو چیف جسٹس پاکستان بنانے کے لیے غور کرے گی۔ 12 رکنی کمیٹی میں اکثریتی رائے کو ترجیح دی جائے گی۔
سپریم کورٹ میں جج کی تقرری کیسے ہو گی؟
آئینی ترامیم کے مسودے کے مطابق سپریم کورٹ کے ججز کی تقرری بھی کمیشن کے تحت ہو گی۔ 12 رکنی کمیشن میں چیف جسٹس، پریزائیڈنگ جج، سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین جج شامل ہوں گے۔
کمیشن میں وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل، اور سپریم کورٹ کا 15 سالہ تجربہ رکھنے والا وکیل، جو پاکستان بار کونسل کا نمائندہ ہو گا، شامل ہو گا۔
جوڈیشل کمیشن میں سینیٹ اور قومی اسمبلی سے حکومت اور اپوزیشن کے دو دو ارکان شامل ہوں گے، جبکہ ایک خاتون یا غیر مسلم رکن بھی ہو گا، جو سینیٹ میں بطور ٹیکنوکریٹ تقرری کی اہلیت رکھتا ہو۔
26ویں آئینی ترمیم کے مطابق کوئی شخص سپریم کورٹ کا جج تعینات نہیں ہو گا جب تک کہ وہ پاکستانی نہ ہو۔ سپریم کورٹ کا جج ہونے کے لیے پانچ سال ہائی کورٹ کا جج ہونا یا 15 سال ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا وکیل ہونا لازم ہے۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد تقریر میں اس اعتماد کا اظہار کیا کہ یہ عام آدمی کو آسان اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے گا۔انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ذاتی مفادات اور انا سے بالاتر ہو کر بہترین قومی مفاد میں آگے بڑھیں۔
قانونی ماہرین کے مطابق نئی ترمیم کا پہلا چیلنج یہ ہی ہوگا کہ سیاسی جماعتیں کتنا جلد اور اتفاق رائے سے نئے چیف جسٹس کے نام پر متفق ہوتے ہیں۔