سپریم کورٹ بار: صدر، جنرل سیکریٹری حریف گروپوں سے منتخب

سپریم کورٹ بار کے انتخابات میں عاصمہ جہانگیر یعنی (انڈپینڈنٹ گروپ) کے صدارتی امیدوار میاں رؤف عطا نے 1270 ووٹ حاصل کیے جبکہ حامد خان (پروفیشنل گروپ) کے منیر کاکڑ 1155 ووٹ لے سکے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نو منتخب صدر میاں رؤف عطا اپنی انتخابی مہم کے دوران 29 اکتوبر 2024 کو اپنے ووٹرز کے ہمراہ موجود ہیں (میاں رؤف عطا فیس بک)

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سالانہ انتخابات 2024 میں صدر اور جنرل سیکریٹری کے عہدوں پر روایتی حریفوں کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔

منگل کو ملک کے تمام شہروں میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات منعقد ہوئے جس میں اراکین سپریم کورٹ بار نے حق رائے دہی استعمال کیا۔

سپریم کورٹ بار کی الیکشن کمیٹی کی جانب سے گنتی کا عمل مکمل ہونے کے بعد عاصمہ جہانگیر یعنی (انڈپینڈنٹ گروپ) نے میدان مار لیا جس کے امیدوار میاں رؤف عطا 1270 ووٹ لے کر صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن منتخب ہوگئے۔

ان کے مد مقابل حامد خان (پروفیشنل گروپ) کے منیر کاکڑ 1155 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔

پروفیشنل گروپ کے سلمان منصور سیکریٹری منتخب ہوگئے جبکہ انڈپینڈنٹ گروپ کے ملک زاہد کو اس عہدے پر شکست ہوئی۔

غیر حتمی نتائج کے مطابق انڈپینڈنٹ گروپ کے میاں رؤف عطا لاہور، ملتان، پشاور، بہاولپور سمیت نو شہروں سے جیت گئے جبکہ پروفیشنل گروپ صرف کراچی اور کوئٹہ سے برتری حاصل کرسکا۔

کل 17 میں سے 14 عہدوں پر انڈپینڈنٹ گروپ کو برتری حاصل ہے جبکہ تین عہدوں پر  پروفیشنل گروپ کے امیدواروں کو برتری حاصل ہے۔

سپریم کورٹ بار کے نو منتخب صدر کون ہیں؟

نومنتخب صدر میاں رؤف کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ انہوں نے وہیں قانون کی تعلیم حاصل کی اور وکلالت کے شعبے سے وابستہ ہو گئے۔

وہ ممبر بلوچستان بار بھی منتخب ہو چکے ہیں۔ کوئٹہ بار میں انہیں پیشہ ور وکیل کے طور پر جانا جاتا ہے۔

انڈپینڈنٹ گروپ کے نو منتخب صدر میاں رؤف عطا نے کامیابی کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’تمام پروفیشنل وکلا کا شکریہ ادا کرتا ہوں، کالے کوٹ کی عزت نفس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو گا، ہمارے گروپ نے ہمیشہ آئین و قانون کی بالادستی کی کوشش کی ہے، آئندہ بھی ہم آئین و قانون کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے انڈپینڈنٹ گروپ کے نومنتخب عہدیداروں کو مبارک باد پیش کی۔

انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ اداروں میں مداخلت ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی، پارلیمان سپریم ہوتی ہے عدلیہ کے وقار پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو گا۔

پروفیشنل گروپ کے نومنتخب سیکریٹری سلیمان منصور نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ ’نظام عدل، وکلا کے پیشے اور وکلا کی بہتری کے لیے کام کروں گا، 26ویں آئینی ترامیم میں زیادتی ہوئی ہے، انہیں ججز بنانے کا اختیار دے دیا ہے جن کے خلاف لوگ روز کھڑے ہوتے ہیں، یہ ترامیم عوام کے خلاف ہیں، یہ ترامیم نظام عدل کے قتل کے مترادف ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وکلا انتخابات سے قبل مخالف ہوتے ہیں، انتخابات کے بعد وکلا ایک منتخب باڈی کے طور پرکام کرتے ہیں، مشترکہ ایجنڈے پر ہم سب مل کر کام کریں گے۔‘

سپریم کورٹ بار کی جانب سے طے شدہ فارمولہ کے تحت صدارتی امیدوار بلوچستان سے منتخب ہونا تھا۔ لہذا انڈپینڈنٹ اور پروفیشنل گروپ نے صدارتی امیدوار کوئٹہ سے میدان میں اتارے تھے جبکہ سیکریٹری کے عہدے کے لیے دونوں امیدوار ملک زاہد اور سلیمان منصور کا تعلق لاہور سے ہے۔

سپریم کورٹ بار کے انتخابات میں پولنگ کا عمل صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک بلا تعطل جاری رہا۔

سپریم کورٹ بار کے ملک بھر میں چار ہزار سے زائد ممبران ہیں جنہوں نے ووٹ کا حق استعمال کیا۔

انتخابات کے وکلا تحریک پر اثرات

پروفیشنل گروپ کے سربراہ حامد خان کی جانب سے انتخابی مہم کے دوران 26ویں ترمیم کے خلاف مہم چلائی گئی تھی۔

انہوں نے وکلا کنونشن میں خطاب کے دوران متعدد بار کہا تھا کہ سپریم کورٹ بار کے ان انتخابات کے جوڈیشل ریفارمز کے خلاف وکلا تحریک پر گہرے اثرات ہوں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان