پاکستانی سیاست میں کیا گھریلو خواتین کی شمولیت نئی ہے؟

یہ امر غور طلب ہے کہ سیاسی کارکن تو اپنی جماعت کے لیے باہر آئیں لیکن بڑے سیاسی خانوادوں کی خواتین اسی وقت باہر آئیں جب ان کے خاندانوں کے مردوں کو زیرعتاب لایا گیا۔

پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور 26 نومبر 2024 کو کنٹینر پر سوار احتجاجی قافلے کی قیادت کر رہے ہیں (پی ٹی آئی بلو سکائی)

کیا پاکستانی سیاست میں گھریلو خواتین کی شمولیت کوئی نئی بات ہے؟ نہیں، ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ پاکستان کے سیاسی خانوادوں کی خواتین اس وقت سیاست میں سرگرم نظر آئیں جب ان کے گھر کے مردوں پر کڑا وقت آیا۔

اسی طرح سیاسی جہدوجہد میں خواتین کارکنان بھی ہمیشہ پیش پیش رہیں، چاہے وہ تحریک پاکستان ہو، جمہوریت بحالی مہم یا عدلیہ بحالی مہم، ہمیں خواتین ہر جگہ نظر آئیں۔

تاہم یہ امر یہاں غور طلب ہے کہ سیاسی کارکن تو اپنی جماعت کے لیے باہر آئیں لیکن بڑے سیاسی خانوادوں کی خواتین اسی وقت باہر آئیں جب ان کے خاندانوں کے مردوں کو زیرعتاب لایا گیا۔

میرے نزدیک جب اچھا وقت ہو اس وقت بھی خواتن کو سیاست میں شمولیت اختیار کرنی چاہیے، یہ ان کا جمہوری اور آئینی حق ہے۔ اس وقت پاکستانی سیاست کے افق پر بہت سے نئے چہرے ابھرے ہیں اور تجربہ کار چہرے بھی موجود ہیں۔ خواتین کی سیاست میں شمولیت جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے۔

بشریٰ بی بی

اس وقت سیاسی افق پر جو نیا چہرہ سامنے آیا ہے وہ عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ جب ان کے خاوند ملک کے وزیراعظم بھی تھےوہ تب بھی سیاسی اور سرکاری تقریبات میں شرکت نہیں کرتی تھیں۔ وہ صرف فلاحی اداروں کے دوروں پر نظر آئیں۔

عمران خان سے شادی کے بعد وہ بھی زیرعتاب آئیں ان کے خلاف منفی مہمات چلائی گئیں لیکن انہوں نے ردعمل کے بجائے خاموشی اختیار کی۔ان پر عدت اور توشہ خانہ کیس بنایا گیا وہ عدالتی کارروائی کا سامنا کرتی رہیں اور انہیں جیل بھیج دیا گیا، خندہ پیشانی سے جیل کاٹ کر اب وہ اپنے شوہر کو رہا کرنے والی ریلیوں اور دھرنے کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں۔

علیمہ خانم

عمران خان کی تمام بہنیں ان کی رہائی کے لیے کوشاں ہیں، خاص کر علیمہ خانم سیاسی کارکنان کے ساتھ جہدوجہد میں پیش پیش ہیں۔ وہ نو مئی کے بعد سے قیدیوں کے خاندانوں سے بھی مل رہی ہیں، ان کے لیے فنڈ بھی قائم کیا ہے اور زخمی ہونے والے کارکنان کی بھی عیادت کرتی ہیں۔

اس کے ساتھ، وہ عمران خان پر جاری مقدمات کی سماعت پر بھی پیش ہوتی ہیں اور ملاقات کے لیے اڈیالہ جیل بھی  باقاعدگی سے جاتی ہیں۔ اس جہدوجہد کے دوران ان کو خود بھی جیل جانا پڑا لیکن چند دن بعد ان کی ضمانت ہوگئی اور وہ سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔  

ریحانہ ڈار

پاکستانی اس وقت بہت رنجیدہ ہوئے جب انہوں نے ایک بزرگ خاتون کو پھٹے ہوئے گربیان کے ساتھ پولیس کے مظالم بیان کرتے ہوئے دیکھا۔ پولیس ان کے بیٹوں عثمان ڈار اور عمر ڈار کو گرفتار کرنا چاہتی تھی جو دونوں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے عہدیدار تھے۔ اس واقعے نے ریحانہ ڈار کو بدل کر رکھ دیا۔

انہوں نے نا صرف اپنے بیٹوں کو عتاب سے بچایا بلکہ عملی سیاست میں بھی قدم رکھ دیا۔ خواجہ آصف کے مقابلے میں الیکشن لڑا اور اچھے خاصے ووٹ حاصل کیے۔ ضعیف العمری کے باوجود وہ ہر سیاسی جلسے میں جاتی ہیں اور شعلہ بیان ہیں۔

 اگر ہم تاریخ کی طرف نظر دوڑائیں تو ماضی میں بھی خواتین اس وقت سیاست میں سرگرم ہوئی جب ان کے خاندان اور جماعتیں زیرعتاب آئے۔

بھٹو خاندان کی خواتین

بھٹو خاندان نے جہاں بہت عروج دیکھا وہاں انہوں نے سیاسی زندگی میں ایسی تلخیاں دیکھیں جو شاید ہی کسی خاندان کے حصے میں آئی ہوں۔ نصرت بھٹو نے شوہر سمیت تین بچوں کے جنازے دیکھے جو ان کو توڑ گئے۔ ان کے شوہر کو 1979 میں ملٹری ڈکٹیٹر ضیا الحق کی طرف سے پھانسی دی گئی۔

اس عدالتی قتل پر ابھی کچھ عرصہ پہلے سپریم کورٹ نادم نظر آئی۔ 1985 میں ان کے بیٹے میر شاہ نواز پراسرار حالت میں فرانس میں مردہ پائے گئے۔1996 میں ان کا جواں سال بیٹا میر مرتضی قتل کر دیا گیا۔ 2007 میں ان کی پیاری بیٹی بے نظیر خود کش حملے میں جانبر نہ ہو سکی۔

بھٹو خاندان کی سیاسی وراثت اب زرداری خاندان کے پاس ہے بےنظیر بھٹو اور آصف زرداری کے بیٹے بلاول اور آصفہ عملی سیاست کا حصہ ہیں جبکہ میر مرتضی کی اہلیہ غنوی سیاست سے کنارہ کش ہیں اور ان کے بچے میر ذوالفقار علی بھٹو جونیئر سماجی کاموں میں مصروف اور فاطمہ بھٹو معروف لکھاری ہیں۔

بے نظیر بھٹو دو بار اس ملک کی وزیراعظم رہیں، ان کی اور ان کی والدہ کی آمروں کے سامنے جمہوری جہدوجہد ہمیشہ جمہوری تاریخ میں یاد رکھی جائے گی۔

بیگم نسیم ولی اور ثمر بلور

بیگم نسیم ولی معروف سیاست دان ولی خان کی اہلیہ اور خان عبد الغفار خان کی بہو تھیں۔ وہ ایک پردہ دار گھریلو خاتون تھیں تاہم شوہر کی گرفتاری نے ان کو مجبور کیا کہ وہ عملی سیاست میں قدم رکھیں۔ ان کی اے این پی میں شمولیت سے یہ جماعت بہت مضبوط طاقت بن کر ابھری۔ 1977 کے انتخابات میں وہ  اس وقت سرحد کہلانے والے صوبے کی اسمبلی کی پہلی خاتون رکن منتخب ہوئیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پرویز مشرف کے دور میں بھی انہوں نے اہم سیاسی کردار ادا کیا۔ ثمر بلور بھی اے این پی کا ایک متحرک حصہ ہیں اپنے شوہر کی خود کش حملے میں ناگہانی موت کے بعد انہیں سیاست میں آنا پڑا وہ 2018 میں الیکشن جیت کر صوبائی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ اس مرتبہ وہ انتخابات میں کامیابی حاصل نہ کر سکیں مگر پھر بھی اپنے سیاسی مخالف کو جیت کی مبارک باد پھولوں کے ساتھ جا کر دی۔ یہ ایک خوبصورت روایت تھی جس کو سب کی طرف سے سراہا گیا۔

بیگم کلثوم نواز اور مریم نواز

شریف خاندان کی خواتین اس وقت سیاسی افق پر آئیں جب اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو معزول کرکے اٹک جیل میں بند کر دیا گیا۔ مریم نواز اس وقت گھریلو زندگی گزار رہی تھیں اور کلثوم نواز خاتون اول ہونے کے باوجود سیاست سے دور تھیں۔

انہوں نے پرویز مشرف کے سامنے جمہوری جہدوجہد کا آغاز کیا، بعد ازاں وہ اپنے شوہر اور خاندان کو بحفاظت لے کر سعودی عرب چلی گئیں۔ اس کے بعد جب دوبارہ شریف خاندان کی واپسی ہوئی تو مریم نواز نے والد کی معاونت شروع کر دی، جماعت کو متحد کیا اور اس کے سوشل میڈیا کو مضبوط کیا۔ عملی طور اب مسلم لیگ کی ساری کمان مریم نواز کے ہاتھ میں ہے۔اس کے ساتھ ہی وہ پاکستان کی تاریخ کی پہلی خاتون بنیں جو پنجاب کی وزیراعلی مقرر ہوئی۔

سیاست میں اب تک جتنی خواتین اپنے والد، شوہر، بھائی یا بیٹے کو ریاست کے عتاب بچانے کے لیے آئیں وہ کامیاب ہوئیں اور ان کے خاندان کے مردوں کو رہائی نصیب ہوئی۔

اب اس وقت بشریٰ بی بی میدان میں ہیں وہ اپنے شوہر عمران خان کی رہائی کے لیے کینٹیر پر آئی ہیں۔ جہاں کینٹینرز عوام کے لئے وبال جان ہیں وہیں سیاست دانوں کے لیے کینٹنیرز کی سواری نیک شگون ہیں۔ سیاست دانوں کو کنٹینرز کی سواری کے بعد اکثر کامیابی ملتی ہے۔

عمران خان کی بہنیں علیمہ خانم، عظمی خانم، رانی خانم ان کے تمام مقدمات کی کارروائی میں پیش پیش اور تمام جلسوں اور احتجاجوں میں شریک ہوتی ہیں۔

پاکستان کی تاریخ میں خواتین کی بہت روشن سیاسی تاریخ ہے۔ فاطمہ جناح تحریک پاکستان کی سرخیل ہیں۔ اماں بی، بیگم رعنا لیاقت، بیگم شاہنواز، بیگم جہاں آرا، بیگم سلمی تصدق، لیڈی ہارون و دیگر نے عملی سیاست سے پاکستان کی تشکیل میں حصہ لیا۔

اس ہی طرح پاکستان کے قیام کے بعد خواتین حکومت کا حصہ رہیں، جن میں بیگم رعنا لیاقت علی، بیگم شائستہ اور بیگم جہاں آرا شامل تھیں۔ اس کے بعد خواتین کے لیے سیاست میں راہیں کھلتی چلی گئیں۔

فہیمدہ مرزا کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وہ اسمبلی کی پہلی خاتون سپیکر منتخب ہوئیں، اس ہی طرح شیری رحمان وہ پہلی اور پاکستان کی واحد خاتون ہیں جو سینیٹ میں پہلی اپوزیشن لیڈر مقرر ہوئیں۔ ثریا بی بی جوکہ اس وقت خیبر پختونخوا اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر ہیں، ان کو یہ اعزاز جنرل نشست جیت کر آنے پر ملا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ