بیرون ملک مقیم پاکستانی شہریوں کی تقریباً 30 ارب ڈالر کی ترسیلات ملک کی مجموعی برآمدات کے مساوی ہیں جس کا مطلب ہے کہ ہر سال ایک بہت بڑی رقم ملک کے ساتھ ساتھ ان خاندانوں کی سماجی اور معاشی حالات میں معاون ہوتی ہے جن کے پیارے، اکثر نوجوان، بیرون ملک کام کے لیے جاتے ہیں۔
پاکستان سے بڑی اور تیز رفتاری سے ہونے والی اس نقل مکانی نے ان کے خاندانوں کے معیارِ زندگی پر انقلابی اثرات ڈالے ہیں جس سے دوسرے لوگوں کو بھی اسی راستے پر چلنے کی ترغیب ملی ہے اور وہ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالنے تک کو تیار ہیں۔
گذشتہ سال جون میں یونان کے ساحل کے قریب ایک کشتی ڈوب گئی جس میں 350 پاکستانی اٹلی پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔
2023 ہی میں ترکی کے ساحل سے 12 پاکستانیوں کی لاشیں ملی تھیں۔ حال ہی میں یونان کے جنوبی جزیدے کے قریب 15 دسمبر کو غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی پر سوار 80 پاکستانیوں میں سے صرف 43 کو بچایا جا سکا۔
اس حادثے کے بعد چار لاشیں نکال لی گئیں باقی کی اموات کا خدشہ ہے۔ اس طرح کے ہر سانحے کے بعد حکومت پاکستان انسانی سمگلروں کے خلاف سخت کارروائی کا وعدہ کرتی ہے لیکن ہم سمگلرز کی گرفتاریوں سے زیادہ مزید ایسے المناک اموات کے بارے میں سنتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشی ثمرات سے متاثر خاندان اپنے کسی رکن کو بیرون ملک بھیجنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
اس طرح کے بہت سے معاملات میں یہ رجحان صرف غریبوں یا بے روزگاروں تک محدود نہیں کیونکہ بیرون ملک جانے کے خواہش مند انسانی سمگلرز کو بھاری فیس ادا کرتے ہیں۔
سماجی رجحانات اور بیرون ملک کام کرنے والوں کے بڑے گھر اور جائیدادیں بھی باعث ترغیب بنتی ہیں، وہ اپنی زمینیں بیچ دیتے ہیں، بھاری قرضے لیتے ہیں یا اپنی سالوں کی بچت کو خوشحالی کے خوابوں کی دوڑ میں لگا دیتے ہیں۔
بدقسمتی سے جب حکومتی ایجنسیاں انسانی سمگلرز کو پکڑنے کے لیے تحقیقات کرتی ہیں تو بجائے اس کے کہ وہ سہولت کاروں کے خلاف گواہی دیں، کئی خاندان اس سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ غیر قانونی نقل مکانی بڑھ رہی ہے لیکن یہ باقاعدہ ہجرت کا ایک نسبتاً چھوٹا حصہ ہے۔ اس کا اندازہ ان اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے جن کے مطابق گذشتہ ایک دہائی کے دوران 16.5 ملین پاکستانی ملک چھوڑ گئے۔
صرف پچھلے سال 862,625 پاکستانیوں نے کام، تعلیم اور مستقل رہائش کے لیے دنیا بھر میں مختلف ممالک کا رخ کیا۔
یہ 2022 کے آٹھ لاکھ 32 ہزار 339 کے اعداد و شمار سے 3.6 فیصد زیادہ تھا۔ رواں سال بھی یہی رجحان ہے اور اعدادوشمار کے سامنے آنے پر یہ سنگ میل 10 لاکھ کے قریب پہنچ سکتا ہے۔
مشرق وسطیٰ، خاص طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستانی ملازمین کے لیے سب سے پرکشش مقام بنے ہوئے ہیں جہاں زیادہ تر غیر ہنر مند اور نیم ہنر مند کام کے لیے جاتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر دوسرا پاکستانی تارکینِ وطن یا تقریباً 50 فیصد آج سعودی عرب میں ملازمت کرتا ہے۔ عمان میں پاکستانیوں کی تعداد حالیہ برسوں میں تین گنا بڑھ کر ایک لاکھ 80 ہزار 807 ہو گئی ہے۔
اسی طرح بحرین میں بھی ایک ایسا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے جب کہ قطر میں پاکستانیوں کی تعداد فیفا ورلڈ کپ کے بعد کم ہوئی ہے۔
موازنے کے طور پر برطانیہ، یورپ اور شمالی امریکہ کی طرف ہجرت کم ہے لیکن یہ زیادہ تر ہنر مند نوجوانوں اور کاروباری افراد پر مشتمل ہے جو شہریت حاصل کرنے کے ارادے سے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
پاکستانی مغربی دنیا میں ایک بڑھتی ہوئی تارکینِ وطن برادری بن چکے ہیں جس کی سیاسی اہمیت اور سرگرمی خصوصاً برطانیہ اور امریکہ میں بڑھ رہی ہے اور یہ ان کی طرح کئی لوگوں کے خوابوں کی منزل ہیں۔
تاہم پاکستان میں 50 فیصد سے زیادہ ترسیلات سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں سے آتی ہیں۔ پاکستان میں ہر سال بیرون ملک جانے والے 20 لاکھ نوجوانوں میں سے زیادہ تر صرف مشرق وسطیٰ میں چھوٹی موٹی نوکریاں لینے کے قابل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگر ملک کمزور معیشت، سیاسی عدم استحکام اور بدانتظامی سے متاثر رہتا ہےتو شاید یہ تازہ گریجویٹس کو جذب کرنے کے قابل نہ ہو، جس سے وہ عالمی منڈی میں ملازمتیں تلاش کرنے پر مجبور ہو جائیں۔
نتیجتاً پاکستان، جو مشرق وسطیٰ اور مغرب کے لیے بہترین صلاحیت والی افرادی قوت برآمد کر رہا ہے، وہ مزید ’برین ڈرین‘ کا شکار ہو سکتا ہے۔
اگر پاکستان اپنی نوجوان ورک فورس کا مزید حصہ کھو دیتا ہے تو زیادہ ترسیلات زر کے باوجود اس کی معیشت کو طویل مدتی فوائد جیسے کہ تکنیکی تبدیلی، صنعتی ترقی اور مقامی اختراع میں کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔
تنازعات، شورشوں، بدعنوانی، قانون کی حکمرانی کے فقدان اور اشرافیہ کے قرضوں تلے دبی معیشت کے مستقل ساختی مسائل کے سیاسی عوامل کا محاسبہ کیے بغیر پاکستانی نوجوانوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی روکی نہیں کی جا سکتی۔
خوش قسمتی سے پاکستان اور کچھ دوسرے جنوبی ایشیائی ممالک کی نوجوان افرادی قوت اس وقت بڑھ رہی ہے جب مغربی دنیا میں اس کی آبادی زوال کا شکار ہے۔
مغربی اور خوشحال ممالک کی بڑھتی ہوئی عمر رسیدہ آبادی کی دیکھ بھال کے لیے مزید ڈاکٹروں اور نرسوں اور آنے والے دہائیوں میں زیادہ مضبوط افرادی قوت کی ضرورت ہو سکتی ہے جو فیکٹریوں میں کام کریں اور اناج اگائیں اور پاکستان اس مقصد کے لیے اپنی افرادی قوت کو مکمل طور پر تیار کر سکتا ہے۔
شاید یہی دنیا کے جغرافیائی تبدیلیوں اور عالمی معیشتوں کے متحرک ہونے کی منطق ہے لیکن ترسیلات زر کے فائدے ممکنہ طور پر قومی پیداوار میں کمی کی تلافی نہیں کر پائیں گے۔
پاکستان 2030 تک دنیا کے سب سے بڑی صارفین کی منڈیوں میں سے ایک یعنی ساتویں نمبر پر ہو گا لیکن ہم اسے ترسیلات ضائع کرتے ہوئے اور زیادہ قیمت والی اشیا اور سروسز برآمد نہ کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔