انڈیا کی اپوزیشن جماعتوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایف-35 لڑاکا طیاروں کی پیشکش پر شدید تنقید کی اور ان کی زیادہ لاگت پر اعتراض اٹھایا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق روس نے وزیر اعظم نریندر مودی کے اہداف کے مطابق اپنے جدید ترین طیارے مقامی طور پر تیار کرنے کی پیشکش کی ہے۔
انڈیا کے دیرینہ دفاعی شراکت دار روس اور امریکہ کی یہ پیشکش ایسے وقت میں آئی جب انڈین فضائیہ کے سکواڈرنز کی تعداد کم ہو کر 31 رہ گئی ہے، جب کہ منظور شدہ تعداد 42 ہے، اور انڈیا چین کے تیزی سے بڑھتی ہوئی فوجی برتری کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید طیارے حاصل کرنا چاہتا ہے۔
گذشتہ ہفتے واشنگٹن میں مودی سے ملاقات کے بعد ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ 2025 سے انڈیا کو فوجی ساز و سامان کی فروخت میں اضافہ کرے گا اور بالآخر لاک ہیڈ مارٹن کے تیار کردہ پانچویں نسل کے ایف-35 لڑاکا طیارے فراہم کرے گا۔
انڈیا کی مرکزی اپوزیشن جماعت کانگریس نے ٹرمپ کے اتحادی اور ارب پتی ایلون مسک کی ماضی میں ایف-35 پر کی گئی تنقید کو بنیاد بنا کر مودی حکومت کو نشانہ بنایا ہے۔
کانگریس کے آفیشل ایکس اکاؤنٹ پر اس اختتام ہفتہ پر ایک پوسٹ میں سوال کیا گیا ہے کہ ’ایلون مسک نے ایف-35 کو ’ بے کار‘ قرار دیا ہے، تو نریندر مودی اسے خریدنے پر کیوں بضد ہیں؟‘
پارٹی نے کہا کہ یہ طیارہ مہنگا ہے اور اس کے آپریشنل اخراجات بھی زیادہ ہیں۔ امریکی حکومت کے مطابق ایک ایف-35 طیارے کی لاگت تقریباً آٹھ کروڑ ڈالر ہے۔
انڈین حکومت نے اب تک یہ نہیں کہا کہ وہ یہ طیارہ خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے، جب کہ انڈین وزیر خارجہ نے گذشتہ ہفتے صحافیوں کو بتایا تھا کہ امریکی پیشکش فی الحال ’صرف تجویز کی حد تک ہے‘ اور حصول کا عمل شروع نہیں ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈیا کی وزارت دفاع نے فوری طور پر اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
کانگریس کی ایکس پر کی گئی پوسٹ میں نومبر 2024 میں مسک کی ایک پوسٹ کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں انہوں نے ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’یہاں کچھ احمق اب بھی ایف-35 جیسے انسانی پائلٹ والے لڑاکا طیارے بنا رہے ہیں۔‘
مسک نے بعد میں ایک اور پوسٹ میں کہا تھا: ’ڈرونز کے اس دور میں انسانی پائلٹ والے لڑاکا طیارے متروک ہو چکے ہیں۔‘
گذشتہ ہفتے روس نے انڈیا میں اپنے پانچویں نسل کے سخوئی ایس یو 57 لڑاکا طیارے کو مقامی طور پر تیار کرنے کی پیشکش کی تھی اور کہا تھا کہ اگر انڈیا راضی ہو جائے تو پیداوار رواں سال ہی شروع کی جا سکتی ہے۔
انڈیا کی وزارت دفاع کے سابق مالیاتی مشیر برائے دفاعی حصولات امیت کاوشیش کا کہنا ہے: ’روس نے کبھی بھی ٹیکنالوجی کی منتقلی سے گریز نہیں کیا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’مسئلہ روس کی ٹیکنالوجی ٹرانسفر کی پیشکش میں نہیں، بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم روس کے ساتھ لین دین جاری رکھیں گے، تیل خریدیں گے اور شاید کچھ اور چیزیں بھی، لیکن اتنے بڑے (دفاعی) معاہدے سے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔‘
دوسری جانب چین اور پاکستان نے بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس تجویز پر تنقید کی ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ قوم کو ’انڈیا کو اس طرح کی جدید فوجی ٹیکنالوجی کی منصوبہ بند منتقلی پر گہری تشویش ہے۔‘