کراچی کے سفاری پارک میں ساؤتھ افریقہ سے لائی گئی دو ہتھنیاں، ترجمان کے ایم سی دانیال علیشان کے مطابق ٹی بی کے علاج سے گزر رہی ہیں اور بین الاقوامی پروٹوکول کے تحت جاری ان کے علاج کا پہلا فیز مکمل ہونے کو ہے۔
کراچی کے سفاری پارک میں موجود دو افریقی ہتھنیاں، مدھوبالا اور ملکہ جو تپِ دق (ٹی بی) کے مرض میں مبتلا پائی گئی ہیں 2009 میں کم عمری میں تنزانیہ سے پاکستان لائی گئی تھیں، اب سفاری پارک میں باقی رہ جانے والی آخری ہتھنیاں ہیں۔
ان کی ساتھی ہتھنیاں، نور جہاں اور سونیا، بالترتیب 2023 اور 2024 میں مر چکی ہیں۔
سونیا کی موت کے بعد کیے گئے ٹیسٹ سے اس میں ٹی بی کی تصدیق ہوئی، جس کے بعد مدھوبالا اور ملکہ کی سکریننگ کی گئی اور وہ بھی اسی مرض میں مبتلا پائی گئیں، حالانکہ ان میں کوئی واضح علامات موجود نہیں تھیں۔
اسی حوالے سے ترجمان کے ایم سی دانیال علیشان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’ٹی بی کی تشخیص کے بعد کراچی میونسپل کارپوریشن نے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی جس میں پاکستانی ماہرین کے ساتھ سری لنکا سے تعلق رکھنے والے ویٹرنری ماہر ڈاکٹر بدھیکا بندارا کو بھی شامل کیا گیا۔ ڈاکٹر بندارا یکم مئی کو 17 روزہ دورے پر پاکستان آئے تھے اور اس سے قبل 15 ہاتھیوں کا کامیاب علاج کر چکے ہیں۔‘
ڈپٹی ڈائریکٹر زو ڈاکٹر عامر اسماعیل رضوی نے انڈپینڈنٹ اردو کو ہتھنیوں کی میڈیکیشن کے حوالے سے بتایا کہ ’ہتھنی ملکہ اور مدھوبالا کو روزانہ 400 سے زائد اینٹی ٹی بی گولیاں دی جا رہی ہیں۔ دوا کی مقدار ان کے تقریباً 4,000 کلوگرام وزن کو مدِنظر رکھتے ہوئے مقرر کی گئی ہے۔ دوا سیب، کیلے، مٹھائی اور دیگر میٹھی غذاؤں میں چھپا کر کھلائی جاتی ہے کیونکہ جانوروں کو کبھی بھی گولیاں منہ میں نہیں ڈالی جاتیں، یہ طریقہ کبھی بھی کہیں نہیں اپنایا جاتا بلکہ ہمیشہ انہیں غذا میں ادویات ملا کر دی جاتی ہیں۔‘
بقول ڈاکٹر عامر رضوی: ’ہتھنیوں کی بیماری کو دیکھتے ہوئے خاص احتیاط برتی گئی ہے، جس میں سیر و تفریح کی غرض سے آنے والے شہری ہتھنیوں کو کئی فٹ کی دوری سے بذریعہ سفاری وین دیکھ سکیں گے کیونکہ تپِ دق کی بیماری کے منتقل ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ یہ انسان سے جانور اور جانور سے انسان میں بھی منتقل ہو سکتی ہے۔ اسی لیے جانوروں اور شہریوں دونوں کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔‘
چار رکنی میڈیکل ٹیم، جو ماسک اور حفاظتی لباس میں ملبوس رہتی ہے، ہتھنیوں کو دوا دیتی ہے تاکہ انسانی انفیکشن سے بچا جا سکے۔ سفاری پارک کے نوجوان مہاوت یوسف مسیح ہتھنیوں کی دیکھ بھال پر مامور ہیں، جو روزانہ چاول، دال اور چیکو و کیلے میں گولیاں چھپانے کے لیے خوراک کی گیندیں تیار کرتے ہیں اور انہیں اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یوسف مسیح ہتھنی مدھوبالا اور ملکہ سے بہت مانوس ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’وہ ان ہتھنیوں کے مزاج کو بخوبی سمجھتے ہیں لیکن ان دنوں تپِ دق کی وجہ سے وہ دوری کیے ہوئے ہیں۔ ہتھنیوں کے پاس جانے سے پہلے وہ احتیاطی تدابیر کو اپناتے ہوئے ہاتھوں میں دستانے اور چہرے پر ماسک لگاتے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ ملکہ اور مدھوبالا جلد صحت یاب ہو جائیں گی۔‘
ہاتھی کو تپِ دق (ٹی بی) کیسے لاحق ہوتی ہے؟
ماہرین کے مطابق تپِ دق صرف انسانوں ہی کی بیماری نہیں، بلکہ یہ ایک ’زونیوٹک بیماری‘ ہے، یعنی ایسی بیماری جو انسانوں اور جانوروں دونوں کو متاثر کر سکتی ہے۔ اس کا سبب بننے والا جرثومہ Mycobacterium tuberculosis ہے، جو عام طور پر انسانوں میں پایا جاتا ہے، لیکن کچھ حالات میں یہ جانوروں بشمول ہاتھیوں میں بھی منتقل ہو سکتا ہے۔
چڑیا گھروں، سرکس، سفاری پارک یا دیگر مقامات پر جہاں ہاتھی انسانوں کے قریب ہوتے ہیں، وہاں ٹی بی کا بیکٹیریا متاثرہ انسان سے ہاتھی کو منتقل ہو سکتا ہے، خاص طور پر اگر عملہ یا دیکھ بھال کرنے والے افراد خود بیمار ہوں یا ماسک و احتیاطی تدابیر نہ اپنائیں۔
بعض اوقات یہ وائرس دوسرے متاثرہ جانوروں سے بھی ہاتھی میں منتقل ہو سکتا ہے، خاص طور پر اگر وہ ایک ہی جگہ میں رہتے ہوں۔
اگر ہاتھی کسی ایسے ماحول میں رہ رہے ہوں جہاں ٹی بی کے جراثیم موجود ہوں (مثلاً گندا باڑہ، ناقص وینٹیلیشن، یا متاثرہ افراد کا بار بار آنا جانا)، تو انفیکشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔