انڈیا میں ایک سابق کالج پرنسپل کو 2018 میں شادی کے تحفے کے طور پر پارسل میں بم بھیجنے کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق پنجی لال مہر کو مشرقی انڈین ریاست اوڈیشہ کے شہر بولانگیر کی ایک عدالت نے بدھ کو عمر قید کی سزا سنائی۔
انہیں پارسل بم بھیجنے کے واقعے کے تقریباً سات سال بعد سزا سنائی گئی۔ اس واقعے میں 26 سالہ سومیا شیکھر ساہو اور ان کی 85 سالہ پڑدادی جنامنی جان سے گئے تھے۔ ساہو کی اہلیہ ریما اس دھماکے میں شدید زخمی ہو گئیں۔
اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق یہ جوڑا صرف پانچ دن پہلے شادی کے بندھن میں بندھا جب انہوں نے 23 فروری 2018 کو پٹنہ گڑھ شہر میں اپنے گھر پر موصول ہونے والا ایک پارسل کھولا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ پیکٹ دلہے کے نام ’شادی کے تحفے کی شکل میں‘ بھیجا گیا تھا۔
ریما، جو اس وقت 22 برس کی تھیں، ایک ماہ سے زائد عرصے تک ہسپتال میں زیر علاج رہیں۔ ساہو جنوبی شہر بنگلورو میں ایک جاپانی الیکٹرانکس کمپنی میں انجینیئر تھے۔
عدالت نے مہر کو، جو حملے کے وقت 49 سال کے تھے، مقامی میڈیا میں ’شادی بم‘ کیس کے طور پر مشہور اس واقعے میں قتل، اقدام قتل اور دھماکہ خیز مواد کے استعمال کا مجرم قرار دیا۔
اگرچہ استغاثہ نے اس جرم کو ’سنگین‘ قرار دیا لیکن جج سونالی پٹنائک نے اسے ’منفرد ترین‘ کیس قرار دینے سے گریز کیا، جو سزائے موت کا جواز بن سکتا تھا۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق دھماکے کو یاد کرتے ہوئے مقتول کے والد، رویندر ساہو نے کہا: ’یہ پارسل رائے پور سے سکائی کنگ کورئیر کے ذریعے بھیجا گیا۔ جب سومیا نے اس کی ڈوری کھینچی تو دھماکہ ہو گیا جس سے گھر کو شدید نقصان پہنچا، دیواروں میں دراڑیں پڑ گئیں اور کھڑکیوں کے شیشے چکناچور ہو گئے۔‘
جمامنی ہسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں دم توڑ گئیں۔ سومیا زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وی ایس ایس میڈیکل کالج اینڈ ہسپتال برلہ میں چل بسے۔
تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ مہر کے دل میں اس وقت رنجش پیدا ہوئی جب انہیں جیوتی وکاش کالج میں انچارج پرنسپل کے عہدے سے ہٹا کر مقتول سومیا کی والدہ، سنجکتہ ساہو کو پرنسپل مقرر کر دیا گیا۔
Patnagarh Parcel Bomb Blast Case: #PunjilalMeher gets life term#Balangir: The Additional District & Sessions Judge (ADJ) Court in Patnagarh today sentenced Punjilal Meher to life imprisonment in the sensational parcel bomb case, nearly seven years after the tragic incident.… pic.twitter.com/1l6VorumuI
— Argus News (@ArgusNews_in) May 28, 2025
وہ 2009 سے مئی 2014 تک اس عہدے پر فائز رہے، جب کالج میں تاریخ کی لیکچرار سنجکتہ ساہو کو ترقی دے کر پرنسپل بنا دیا گیا۔ تفتیش کاروں کے مطابق، اس تنزلی نے مہر کو شدید طور پر متاثر کیا اور ان کے دل میں سنجکتہ ساہو کے خلاف نفرت اور حسد کے جذبات کو جنم دیا۔
اخبار دی ہندو کے مطابق اگرچہ سنجکتہ ساہو سینیئر تھیں، مہر نے اپنا عہدہ چھوڑنے سے انکار کر دیا، کھلم کھلا بے ادبی کا مظاہرہ کیا اور دھمکیاں دیں۔ وہ غصے اور حسد میں تنازعات کھڑے کرنے لگے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ مہر نے یوٹیوب ویڈیوز دیکھ کر اور آن لائن تحریریں پڑھ کر دھماکہ خیز مواد بنانا سیکھا، جنہیں بعد میں انہوں نے اپنی براؤزنگ ہسٹری سے حذف کر دیا۔
پولیس کے مطابق 2017 میں دیوالی کے موقعے پر مہر نے بڑی تعداد میں پٹاخے خریدے اور تجربات شروع کر دیے۔ پٹاخوں سے بارود نکالا اور دیوالی کی سجاوٹ میں استعمال ہونے والی ایل ای ڈی لائٹس میں بھر کر چھوٹے پیمانے پر دھماکے کیے تاکہ میکانزم کو جانچ سکے۔
پولیس نے کہا کہ جس دن وہ شادی کے تحفے کی شکل میں بم بھیجنے کے لیے رائے پور گئے اس روز انہوں نے پہلے کلاس میں حاضری دی تاکہ اپنے لیے موقعے سے عدم موجودگی کا جواز تیار کر سکیں۔ انہوں نے غالباً ڈیجیٹل سراغ سے بچنے کے لیے ریل گاڑی کا ٹکٹ بھی نہیں خریدا۔
رائے پور پہنچ کر، مہر نے سائیکل رکشہ اور آٹو رکشہ کے ذریعے کئی کورئیر دفاتر کا دورہ کیا اور بالآخر ایک ایسے دفتر کا انتخاب کیا جہاں نہ سی سی ٹی وی تھا اور نہ ہی سکیننگ کا نظام۔ انہوں نے پارسل میں موجود اشیا کو ’تحائف، مٹھائیاں‘ قرار دیا۔
پھر یہ پیکٹ بس کے ذریعے 650 کلومیٹر کا سفر طے کرتا ہوا کئی ہاتھوں سے گزرتا ہوا ساہو خاندان کے گھر پہنچ گیا۔
مہر جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ شادی اور اس واقعے میں مرنے والوں کی اخری رسومات دونوں میں شریک ہوئے، نے مبینہ طور پر پارسل بم بھیجنے کے لیے جعلی نام ’ایس کے شرما، رائے پور‘ اور ایک فرضی پتہ استعمال کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بی بی سی کے مطابق پولیس کئی ہفتے تک اس کیس کی تفتیش کرتی رہی مگر کوئی خاص سراغ نہ مل سکا۔ یہاں تک کہ اپریل 2018 میں مقامی پولیس چیف کو ایک گمنام خط موصول ہوا۔
خط میں دعویٰ کیا گیا کہ پارسل بم ’شرما‘ نہیں بلکہ ’ایس کے سنہا‘ کے نام سے بھیجا گیا اور اس میں محرکات کے طور پر رقم اور دلہے کی ’دھوکہ دہی‘ کا ذکر کیا گیا۔
خط میں یہ بھی اشارہ دیا گیا کہ یہ حملہ کسی ناکام عاشق یا جائیداد کے تنازعے کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ مزید یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ تین افراد نے یہ ’منصوبہ انجام دیا‘ مگر اب وہ ’پولیس کی پہنچ سے باہر‘ ہیں۔ خط میں پولیس پر بے گناہ افراد کو ’ہراساں کرنے‘ کا الزام بھی لگایا گیا۔
پولیس کو شک گزرا کہ یہ گمنام خط خود حملہ آور نے ہی لکھا۔ ایک افسر نے اس جانب توجہ دلائی کہ پارسل پر درج نام ’شرما‘ کو غلط پڑھا گیا۔ ہو سکتا ہے اور وہ دراصل خط میں مذکور ’سنہا‘ سے مشابہت رکھتا ہو۔
خط میں ایسے تفصیلات بھی موجود تھیں جو صرف حملہ آور ہی جان سکتا تھا۔ مقتول کی والدہ نے تحریر کے انداز اور استعمال کیے گئے جملوں کو مہر کے انداز سے مشابہ قرار دیا، جس سے پولیس کو انہیں ہدف بنانے میں مدد ملی۔
دی ہندو کے مطابق تفتیشی افسر ارون بوترا، جو اس کیس کی قیادت کر رہے تھے، نے کہا کہ ’تبدیلی اس وقت آئی جب بولانگیر کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو ایک پراسرار خط موصول ہوا، جس کا مقصد بظاہر تفتیش کو گمراہ کرنا تھا۔‘
’لیکن یہ خط، جو نفیس انگریزی میں لکھا گیا تھا، ہمیں مہر کی طرف لے گیا۔‘
ساہو کے والد نے فیصلے کے بعد عدالت کے باہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’اس جرم کی منفرد ترین نوعیت کو دیکھتے ہوئے سزائے موت کی امید کر رہے تھے‘۔
’لیکن عدالت نے انہیں عمر قید کی سزا سنائی۔‘ انہوں نے مزید کہا۔ ’ہم عدالت کے شکر گزار ہیں۔‘
© The Independent