صدر ٹرمپ کشمیر جیسے معاملات پر ثالثی کرنا چاہیں گے: امریکہ

امریکی ترجمان نے بظاہر مسئلہ کشمیر پر صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’شاید ایسا کوئی معاملہ بھی صدر کی مدت مکمل ہونے سے پہلے حل ہو جائے۔‘

امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے مسئلہ کشمیر پر امریکی ثالثی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں منگل کو کہا کہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ صدر ٹرمپ ایسے معاملات میں ثالثی کرنا چاہیں گے۔

ساتھ ہی انہوں نے عندیہ دیا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان دہائیوں سے تنازع کا باعث بننے والا مسئلہ کشمیر شاید صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مدت مکمل ہونے سے پہلے ’حل ہو جائے۔‘ لیکن انہوں نے اس کی مزید وضاحت نہیں کی۔

منگل کو واشنگٹن میں سٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں بریفنگ کے دوران ترجمان ٹیمی بروس سے ایک صحافی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مسئلہ کشمیر پر ثالثی سے متعلق سوال کیا۔

صحافی نے پوچھا: ’پاکستان اور انڈیا میں جنگ بندی کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کی پیشکش کی تھی۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ ہم اس حوالے سے آگے کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟ مثلاً، اس معاملے پر سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کیا اقدامات کرے گا؟

’کیا دونوں ممالک کی قیادت کو مدعو کیا جائے گا؟ یا کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی حمایت کی جائے گی؟‘

اس پر ترجمان ٹیمی بروس نے جواب دیا: ’میں اس بارے میں بات نہیں کر سکتی کہ صدر کے ذہن میں کیا ہے یا ان کے کیا منصوبے ہیں۔ البتہ میں یہ جانتی ہوں کہ وہ اپنا ہر قدم نسلوں پر محیط تنازعات کو حل کرنے کے لیے اٹھاتے ہیں۔ اس لیے اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ وہ ایسے معاملات میں ثالثی کرنا چاہیں گے۔

’وہ نہ صرف ایسا ظاہر کرتے ہیں بلکہ وہ واقعی ایسے افراد کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب رہے ہیں، جسے پہلے ممکن نہیں سمجھا جاتا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’لہٰذا چونکہ میں صدر کے منصوبوں کے بارے میں نہیں بتا سکتی، دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ ان کا مزاج کیا ہے۔ کسی تفصیل کے لیے آپ وائٹ ہاؤس سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں ان کے پاس بتانے کے لیے بہت کچھ ہوگا۔

’لیکن یہ ایک خوش آئند موقع ہے، اگر ہم اس تنازعے پر کسی نتیجے تک پہنچیں، تو خدا کا شکر ہے اور ساتھ ہی سیکریٹری روبیو، صدر ٹرمپ اور نائب صدر کا بھی شکریہ۔‘

ترجمان نے بظاہر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا: ’ہر دن کچھ نیا ہوتا ہے اور میں امید کرتی ہوں کہ شاید ایسا کوئی معاملہ بھی صدر کی مدت مکمل ہونے سے پہلے حل ہو جائے۔‘

پاکستان اور انڈیا دونوں مسلم اکثریتی خطے کشمیر پر مکمل ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس کے کچھ حصوں کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں۔ دونوں کے درمیان کشمیر پر کئی جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔

انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے سیاحتی علاقے پہلگام میں 22 اپریل 2025 کو ایک حملے میں کم از کم 26 افراد کی موت کے بعد نئی دہلی نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا لیکن اسلام آباد نے اس کی مسلسل تردید کرتے ہوئے اس واقعے کی بین الاقوامی غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

اس کے بعد انڈیا نے چھ اور سات مئی 2025 کی شب پاکستان میں متعدد اہداف کو نشانہ بنایا، جس کا پاکستان نے بھی بھرپور جواب دیا اور انڈین طیارے مار گرائے۔

جوہری ہتھیار رکھنے والے جنوبی ایشیا کے ان دونوں ممالک کے درمیان چار دن تک لڑائی کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں 10 مئی کو سیز فائر پر اتفاق کیا گیا، جس پر تاحال دونوں جانب سے عمل درآمد ہو رہا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ اس کے بعد متعدد بیانات میں یہ کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے دونوں روایتی حریفوں میں جوہری تصادم کو روکنے اور جنگ بندی کے لیے تجارت کو بطور ہتھیار استعمال کیا، تاہم انڈیا نے متعدد بار یہ کہا ہے کہ ’پاکستان کے ساتھ ہونے والے سیزفائر میں امریکہ کا کوئی کردار نہیں تھا۔‘

اس کے علاوہ امریکی صدر دونوں ممالک کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالثی کا عندیہ بھی دے چکے ہیں، جس کا پاکستان نے خیرمقدم کیا ہے، تاہم نئی دہلی نے محتاط بیانات کے ذریعے اس معاملے پر مزاحمت کی ہے۔

پریس بریفنگ کے دوران ترجمان امریکی محکمہ خارجہ سے بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستانی پارلیمانی وفد سے متعلق بھی سوال کیا گیا کہ ’کیا ان کی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے کوئی ملاقات ہوئی؟ اور کیا امریکہ نے پاکستان کی جانب سے کوئی یقین دہانی یا وعدہ کیا ہے کہ وہ ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کریں گے، جو پاکستان سے کارروائی کر رہے ہیں؟‘

ٹیمی بروس نے جواب دیا: ’میں آپ کو بتا سکتی ہوں کہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اعلیٰ حکام نے، جن میں انڈر سیکرٹری برائے سیاسی امور ایلِسن ہوکر بھی شامل ہیں، گذشتہ ہفتے واشنگٹن میں پاکستانی پارلیمانی وفد سے ملاقات کی تھی۔ انہوں نے پاکستان اور انڈیا میں جنگ بندی پر امریکی حمایت کا اعادہ کیا۔

’انہوں نے دوطرفہ تعلقات سے متعلق اہم امور، بشمول انسداد دہشت گردی تعاون پر بھی تبادلہ خیال کیا، تو یہ ملاقات ہوئی۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ڈپٹی سیکریٹری لینڈاؤ نے گذشتہ ہفتے انڈین پارلیمانی وفد سے ملاقات کی اور انہوں نے بھی دہشت گردی کے خلاف انڈیا کے مطالبے اور سٹریٹجک شراکت داری کے لیے مضبوط حمایت کا اعادہ کیا۔‘

پاکستان انڈیا کشیدگی کے تناظر میں وزیر اعظم شہباز شریف کا تشکیل کردہ سفارتی لابنگ کے لیے سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں آٹھ رکنی وفد پہلے مرحلے میں چھ روزہ دورے پر امریکہ روانہ ہوا تھا۔

بلاول بھٹو زرداری کے علاوہ اس وفد میں ڈاکٹر مصدق ملک، خرم دستگیر، شیری رحمان، حناربانی کھر، فیصل سبزواری، تہمینہ جنجوعہ اور جلیل عباس جیلانی بھی شامل تھے۔

دو جون کو سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اقوام متحدہ میں قائم مقام امریکی سفیر ڈوروتھی شیا سے ملاقات میں واشنگٹن پر زور دیا تھا کہ وہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل کے لیے جامع مذاکرات کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان