امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی کیا شخصیت ہیں، اگر کوئی ملک ان کی بات نہ مانے تو وہ اسے عسکری یا معاشی طور پر سزا دینے سے متعلق بیانات دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے، لیکن جب جنگ پھیلنے لگے تو وہ امن کے لیے اپنی کوششوں اور صلح کروانے کا کریڈٹ لینے کا موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
13 سے 24 جون کے درمیان اسرائیل اور ایران میں جنگ کے دوران ایک موقعے پر خود امریکہ بھی اس لڑائی میں کود پڑا اور 22 جون کو جب صدر ٹرمپ نے ایران میں تین جوہری تنصیبات پر غیر معمولی حملہ کر کے اس کی کامیابی کا کریڈٹ لیا تو اس وقت جنگ کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا۔
دنیا تشویش میں مبتلا ہو گئی کہ اب اس جنگ کے اثرات صرف دو ملکوں تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ خطے اور پوری دنیا پر بھی پڑیں گے۔ لیکن پھر اچانک پیر کی شب صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اعلان کیا کہ اسرائیل اور ایران جنگ بندی پر متفق ہو گئے ہیں۔
ٹرمپ کا جنگ بندی کا اعلان اور ایران کے اسرائیل پر حملے
— Independent Urdu (@indyurdu) June 24, 2025
مزید تفصیلات: https://t.co/6yCEmBGau6 pic.twitter.com/3Pf11b1Hjn
جنگ کے دونوں حریفوں کی جانب سے کسی نے بھی ’سیز فائر‘ کے اعلان میں پہل نہیں دکھائی لیکن صدرِ امریکہ نے اپنے سوشل میڈیا پیلٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایک بیان میں نہ صرف سیز فائر پر اتفاق رائے کا اعلان کر دیا بلکہ یہ بھی کہا کہ دونوں ممالک (ایران اور اسرائیل) نے تقریباً بیک وقت ان سے رابطہ کر کے ’امن‘ کے لیے کہا۔
بالآخر منگل کو جنگ بندی پر عمل درآمد کا آغاز بھی ہو گیا۔
وہ صدر ٹرمپ جنہیں کئی ممالک بلکہ خود امریکہ میں بھی بعض حلقے ایران پر حملوں کے سبب تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے، جنگ بندی کے اعلان کے بعد اب تعریفیں سمیٹ رہے ہیں۔ اس طرح امن کے لیے کوششوں میں ایک اور کامیابی کا سہرا انہوں نے اپنے سر لے لیا۔
امریکی صدر نے اپنے بیان میں کہا کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان یہ جنگ برسوں تک جاری رہ سکتی تھی اور ‘پورے مشرق وسطیٰ کو تباہ کر سکتی تھی، لیکن ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی ہو گا۔‘
انہوں نے جنگ بندی پر اتفاق کرنے پر اسرائیل اور ایران دونوں کو مبارک باد بھی دی، یعنی یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ انہوں نے دنیا، خاص طور پر مشرق وسطیٰ کو بڑی تباہی سے بچانے میں کردار ادا کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے قبل جنوبی ایشیا سے متعلق بھی امریکی صدر نے بالکل ایسا ہی کچھ مئی کے وسط میں کہا تھا۔
چھ سے 10 مئی 2025 تک انڈیا اور پاکستان میں لڑائی کے بعد بھی صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا تھا کہ جنوبی ایشا کے دونوں ملک جنگ بندی پر متفق ہو گئے اور پھر عملی طور پر بھی ایسا ہی ہوا۔
انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ کی مداخلت نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک ’خطرناک جوہری جنگ‘ کو روکا ہے۔ صدر ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے انڈیا اور پاکستان پر واضح کیا تھا کہ اگر وہ جنگ روکیں گے تو امریکہ ان سے تجارت کرے گا اور اگر وہ نہیں رکیں گے تو تجارت بھی نہیں ہو گی۔
پاکستان تو جنگ بندی میں ثالثی پر امریکی صدر کا معترف ہے، لیکن انڈیا مصر ہے کہ جنگ بندی ٹرمپ کے کہنے پر نہیں کی گئی۔
پاکستان تو صدر ٹرمپ کی کوششوں سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے 2026 کے نوبیل امن انعام کے لیے ان کے نام کی باضابطہ طور سفارش کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے اور کہا کہ امریکی صدر نے ایک حقیقی امن ساز کا کردار ادا کرتے ہوئے خطے کے لاکھوں لوگوں کو نقصان سے بچایا۔
پاکستان انڈیا کی جنگ چار دن تک جاری رہی، اسرائیل ایران جنگ 12 دن میں بند ہو گئی، لیکن گذشتہ 20 ماہ سے ایک ایسی جارحیت جاری ہے جسے ختم کرنے کے لیے نہ صرف اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر عالمی و علاقائی فورمز اپیلیں کر کے تھک چکے ہیں، بلکہ درجنوں ممالک نے انفرادی طور پر غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔
اہم جوہری تنصیبات مکمل تباہ کر دیں، ایران کو امن قائم کرنا ہوگا: صدر ٹرمپ
— Independent Urdu (@indyurdu) June 22, 2025
مزید تفصیلات: https://t.co/02gk7qMhl9 pic.twitter.com/JtRnEC4iFd
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈیل میکر صدر ٹرمپ نے پاکستان اور انڈیا کے علاوہ ایران اور اسرائیل کے درمیان تو سیز فائر کے اعلانات کر کے کریڈٹ لے لیا لیکن کیا وہ غزہ میں بھی جنگ بندی کرانے میں کامیاب ہو پائیں گے جہاں لگ بھگ 20 ماہ سے اسرائیلی جارحیت جاری ہے جس میں لگ بھگ 56 ہزار فلسطینوں کی جان جا چکی ہے۔
ٹرمپ اگر حقیقی ڈیل میکر اور امن ساز کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو میزائلوں، بموں، ٹینکوں اور نہ جانے دنیا کے ہر جدید اسلحے سے نشانہ بننے والے غزہ کے لوگوں کو بھی دیکھیں۔
امن کے لیے اسرائیلی وزیراعظم کو اس سلسلے میں بھی ایک فون کال کریں۔