ڈیل میکر ٹرمپ کیا غزہ میں بھی سیز فائر کروا سکیں گے؟

پاکستان اور انڈیا کے بعد اسرائیل اور ایران میں جنگ بندی کروانے کا کریڈٹ لینے والے صدر ٹرمپ کیا غزہ میں سیز فائر کروا پائیں گے؟

28 مارچ 2025 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے اوول آفس ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے (اے ایف پی)

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی کیا شخصیت ہیں، اگر کوئی ملک ان کی بات نہ مانے تو وہ اسے عسکری یا معاشی طور پر سزا دینے سے متعلق بیانات دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے، لیکن جب جنگ پھیلنے لگے تو وہ امن کے لیے اپنی کوششوں اور صلح کروانے کا کریڈٹ لینے کا موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔

13  سے 24 جون کے درمیان اسرائیل اور ایران میں جنگ کے دوران ایک موقعے پر خود امریکہ بھی اس لڑائی میں کود پڑا اور 22 جون کو جب صدر ٹرمپ نے ایران میں تین جوہری تنصیبات پر غیر معمولی حملہ کر کے اس کی کامیابی کا کریڈٹ لیا تو اس وقت جنگ کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا۔

دنیا تشویش میں مبتلا ہو گئی کہ اب اس جنگ کے اثرات صرف دو ملکوں تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ خطے اور پوری دنیا پر بھی پڑیں گے۔ لیکن پھر اچانک پیر کی شب صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اعلان کیا کہ اسرائیل اور ایران جنگ بندی پر متفق ہو گئے ہیں۔

جنگ کے دونوں حریفوں کی جانب سے کسی نے بھی ’سیز فائر‘ کے اعلان میں پہل نہیں دکھائی لیکن صدرِ امریکہ نے اپنے سوشل میڈیا پیلٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایک بیان میں نہ صرف سیز فائر پر اتفاق رائے کا اعلان کر دیا بلکہ یہ بھی کہا کہ دونوں ممالک (ایران اور اسرائیل) نے تقریباً بیک وقت ان سے رابطہ کر کے ’امن‘ کے لیے کہا۔

بالآخر منگل کو جنگ بندی پر عمل درآمد کا آغاز بھی ہو گیا۔

وہ صدر ٹرمپ جنہیں کئی ممالک بلکہ خود امریکہ میں بھی بعض حلقے ایران پر حملوں کے سبب تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے، جنگ بندی کے اعلان کے بعد اب تعریفیں سمیٹ رہے ہیں۔ اس طرح امن کے لیے کوششوں میں ایک اور کامیابی کا سہرا انہوں نے اپنے سر لے لیا۔

امریکی صدر نے اپنے بیان میں کہا کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان یہ جنگ برسوں تک جاری رہ سکتی تھی اور ‘پورے مشرق وسطیٰ کو تباہ کر سکتی تھی، لیکن ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی ہو گا۔‘

انہوں نے جنگ بندی پر اتفاق کرنے پر اسرائیل اور ایران دونوں کو مبارک باد بھی دی، یعنی یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ انہوں نے دنیا، خاص طور پر مشرق وسطیٰ کو بڑی تباہی سے بچانے میں کردار ادا کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے قبل جنوبی ایشیا سے متعلق بھی امریکی صدر نے بالکل ایسا ہی کچھ مئی کے وسط میں کہا تھا۔

چھ سے 10 مئی 2025 تک انڈیا اور پاکستان میں لڑائی کے بعد بھی صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا تھا کہ جنوبی ایشا کے دونوں ملک جنگ بندی پر متفق ہو گئے اور پھر عملی طور پر بھی ایسا ہی ہوا۔

انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ کی مداخلت نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک ’خطرناک جوہری جنگ‘ کو روکا ہے۔ صدر ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے انڈیا اور پاکستان پر واضح کیا تھا کہ اگر وہ جنگ روکیں گے تو امریکہ ان سے تجارت کرے گا اور اگر وہ نہیں رکیں گے تو تجارت بھی نہیں ہو گی۔

پاکستان تو جنگ بندی میں ثالثی پر امریکی صدر کا معترف ہے، لیکن انڈیا مصر ہے کہ جنگ بندی ٹرمپ کے کہنے پر نہیں کی گئی۔

پاکستان تو صدر ٹرمپ کی کوششوں سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے 2026 کے نوبیل امن انعام کے لیے ان کے نام کی باضابطہ طور سفارش کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے اور کہا کہ امریکی صدر نے ایک حقیقی امن ساز کا کردار ادا کرتے ہوئے خطے کے لاکھوں لوگوں کو نقصان سے بچایا۔

پاکستان انڈیا کی جنگ چار دن تک جاری رہی، اسرائیل ایران جنگ 12 دن میں بند ہو گئی، لیکن گذشتہ 20 ماہ سے ایک ایسی جارحیت جاری ہے جسے ختم کرنے کے لیے نہ صرف اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر عالمی و علاقائی فورمز اپیلیں کر کے تھک چکے ہیں، بلکہ درجنوں ممالک نے انفرادی طور پر غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔  

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈیل میکر صدر ٹرمپ نے پاکستان اور انڈیا کے علاوہ ایران اور اسرائیل کے درمیان تو سیز فائر کے اعلانات کر کے کریڈٹ  لے لیا لیکن کیا وہ غزہ میں بھی جنگ بندی کرانے میں کامیاب ہو پائیں گے جہاں لگ بھگ 20 ماہ سے اسرائیلی جارحیت جاری ہے جس میں لگ بھگ 56 ہزار فلسطینوں کی جان جا چکی ہے۔

ٹرمپ اگر حقیقی ڈیل میکر اور امن ساز کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو میزائلوں، بموں، ٹینکوں اور نہ جانے دنیا کے ہر جدید اسلحے سے نشانہ بننے والے غزہ کے لوگوں کو بھی دیکھیں۔

امن کے لیے اسرائیلی وزیراعظم کو اس سلسلے میں بھی ایک فون کال کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر