پاکستان میں ’جمہوریت اور آمریت کے ہائبرڈ‘ پر تشویش

’لمز یونیورسٹی میں ہندی زبان سکھانے کے لیے ورکشاپ کرائی گئی، جس پر سکیورٹی اداروں کا نوٹس آ گیا کہ یہ اقدام ریاست کے خلاف ہے، ورکشاپ کیوں کرائی گئی؟‘

ایچ آر سی پی کے سابق ڈائریکٹر آئی اے رحمٰن  نےسیمینا ر سے خطاب میں   زور دیا کہ  سول سوسائٹی منظم افراد کے مجموعے پر مشتمل ہونی چاہیے۔ (تصویر: ارشد چوہدری)

پاکستان میں سماجی آزادیوں کے سلب ہونے، بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور آزادی اظہارِ رائے پر ’خفیہ‘ پابندیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کے زیر اہتمام لاہور میں ’ری کلیمنگ پاکستانز سوک سپیس‘ کے موضوع پر سیمینار کا انعقاد کیا گیا، جہاں مقررین نے ملک میں قائم حکومت کو ’ہائبرڈ جمہوریت‘ اور ’ہائبرڈ آمریت‘ قرار دیا جبکہ لاپتہ افراد کی بازیابی میں عدم دلچسپی، اپوزیشن کے خلاف جانب دار احتسابی عمل جیسے چیلنجز سے نمنٹے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

شرکا سے خطاب کرتے ہوئے ایچ آر سی پی کے سابق ڈائریکٹر آئی اے رحمٰن نے کہا کہ ’2007 میں ایچ آر سی پی نے سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کی فہرست پیش کی تو اس کی سماعت کئی سال بعد کی گئی۔ 2010 میں سپریم کورٹ کا ہیومن رائٹس کمیشن بنایا گیا، جو تین سابق ججز پر مشتمل تھا۔ اس کمیشن نے جو رپورٹ تیار کی وہ آج تک منظرِ عام پر نہیں لائی گئی کیونکہ اس میں پولیس کے علاوہ کسی بھی ادارے کو شہریوں کو حراست میں لینے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’خیبرپختونخوا میں ایچ آر سی پی ایک معاملے کی چھان بین کر رہا تھا تو ریاستی اداروں نے ملاقات سے ہی انکار کردیا۔ آئین پر ریاست کے عمل نہ کرنے پر ان سے کون پوچھے گا؟ سول سوسائٹی کو پوچھنے کا حق ہے لیکن ان کی آواز دبائی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے ریاست کو آئین کے مطابق چلانے کی بات کرنے والی سول سوسائٹی کو ریاست کی مخالفت کا سامنا ہے۔‘

انہوں نے زور دیا کہ ’سول سوسائٹی منظم افراد کے مجموعے پر مشتمل ہونی چاہیے۔ جب تک منظم اور متحرک شہریوں پر مشتمل سول سوسائٹی قائم نہیں ہوگی، ریاست کبھی ان کو جواب دہ نہیں ہوسکے گی۔ حقوق سلب کرنے اور مہنگائی پر کوئی آواز نہیں اٹھاتا، اسی لیے ریاست من مانی کرتی ہے۔ اپنا حق مانگنا جرم نہیں ہے۔آزادی دی نہیں جاتی، لی جاتی ہے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’ہمیں ہر قربانی کے لیے تیار رہنا پڑے گا۔ وہ وقت گئے جب قانون کے تحت کارروائی ہوتی تھی، اب تو یا بندہ ہے یا نہیں ہے۔‘

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما افراسیاب خٹک بھی اس موقع پر موجود تھے، جنہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’بنگلہ دیش الگ ہونے کے بعد 1973 میں آئین بن تو گیا لیکن بدقسمتی سے جرنیلوں نے اسے تسلیم نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ کئی بار آئین توڑ کر مارشل لا لگا دیا گیا اور بنیادی انسانی حقوق سلب کر لیے گئے، جسے روکنے میں عدالتیں بھی بے بس ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سیاسی جماعتوں نے 18ویں ترمیم کے ذریعے آمریتوں کا بگاڑا گیا 1973 کا آئین دوبارہ بحال کیا۔ اس کے بعد عدالتوں کے ذریعے سیاسی انجینیئرنگ کا عمل اپنایا گیا اور آئین کو بے بس کرنے کا نیا طریقہ اپنا لیا گیا اور اب جمہوری نظام کو یرغمال بنا کر طاقت کا توازن بگاڑ دیا گیا ہے۔میڈیا پابندیوں کا شکار ہے اور غیر اعلانیہ مارشل لا لگا ہے، جو نظر نہیں آتا لیکن محسوس ہو رہا ہے۔‘

افراسیاب خٹک نے زور دیا کہ مشرف سمیت 73 کے آئین سے چھیڑ چھاڑ کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے تاکہ آئین موثر اور ریاست مضبوط ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’وسطی پنجاب میں رویہ تبدیل ہونا خوش آئند ہے کیونکہ پہلے چھوٹے صوبوں سے آمریت کے خلاف آواز اٹھتی تھی تو یہاں سے غداری کا نعرہ لگایا جاتا تھا۔‘

اس سے قبل سیمینار سے خطاب میں سماجی رہنما حنا جیلانی نے کہا کہ ’انسانی حقوق کی جدوجہد آج پہلے سے بڑا چیلنج ہے۔ انسانیت سوز واقعات پر بولنے والوں کو اٹھالیا جاتا ہے جبکہ سپریم کورٹ کمیشن بنا کر بری الذمہ ہو جاتی ہے۔لاپتہ افراد کو رہائی مل بھی جائے تو یہ نہیں بتایا جاتا کہ کہاں سے بازیاب کرایا گیا۔ نامعلوم کہہ کر معاملہ دبا دیا جاتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’فاٹا خیبرپختونخوا میں ضم تو ہوا لیکن کوئی فرق نہیں پڑا۔ فوج کا کنٹرول پہلے کی طرح موجود ہے، سول انتظامیہ اب بھی بے بس ہے اور وہاں اب بھی آزادی اظہارِ رائے حاصل نہ ہوسکی۔‘

حنا جیلانی کے خیال میں کرپشن کو بنیاد بنا کر جمہوری اداروں کو  کمزور کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں کو بدنام کرنے کے لیے ایسا کرنا نقصان دہ ہے۔

سماجی رہنما محمد تحسین نے اس موقع پر کہا کہ ’پہلے مارشل لا لگتا تھا تو بتا دیا جاتا تھا کہ کیا کیا جاسکتا ہے اور کیا نہیں۔ لیکن اب کچھ نہیں بتایا جاتا۔ مرضی سے چینل بند کر دیے جاتے ہیں اور کسی کو بھی بغیر وجہ بتائے اٹھالیا جاتا ہے۔ یہاں ہائبرڈ جمہوریت اور ہائبرڈ مارشل لا لگا ہوا ہے۔ موجودہ وزیراعظم کابینہ میں بھی وزیروں کو مسائل بتانے کی اجازت نہیں دیتے۔‘

50 سال سے پاکستان میں چھپنے والے ڈان گروپ کے میگزین ہیرالڈ کے، جو اب بند ہو گیا ہے، آخری مدیر بدر عالم نے بندش کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ ’مکران میں 50 ہزار ایکڑ زمین فوج نے خریدی، مچھیروں نے مزاحمت کی تو کشتیاں جلا دی گئیں۔ جب متاثرین میں پانچ، پانچ ہزار روپے تقسیم کرنے والے ایجنسی کے افسر کی خبر چھاپی گئی تو انہوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ اسی طرح پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کی پروفائل سٹوری چھاپی گئی تو سکیورٹی افسر کا فون آیا کہ وہ پبلشر کے خلاف کارروائی کریں گے اور ادارہ بند ہوگیا، جس کی ڈان اخبار میں ایک کالم خبر بھی شائع نہ ہوئی۔ یہی وہ غیراعلانیہ سنسر شپ ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔‘

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) کے پروفیسر علی عثمان قاسمی نے تعلیمی اداروں میں سوچ پر پابندیوں کے نقصانات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لمز یونیورسٹی میں ہندی زبان سکھانے کے لیے ورکشاپ کرائی گئی، جس پر سکیورٹی اداروں کا نوٹس آ گیا کہ یہ اقدام ریاست کے خلاف ہے، ورکشاپ کیوں کرائی گئی؟‘

انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں بھی کھلے ذہن سے ہر موضوع پر بحث مباحثے کی اجازت نہیں۔ ٹیکنو فاشزم کی وجہ سے فکری اور تحقیقاتی آزادی نہیں اور نہ ہی تنقیدی سوچ کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔‘

سوشل میڈیا پر پابندیوں کے معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے فریحہ عمرانہ نے کہا کہ ’ایف آئی اے اور پی ٹی اے سائبر کرائم ایکٹ کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جائز تنقید کو بھی دہشت اور نفرت پھیلانے کے دائرے میں شامل کرکے ایف آئی آر مین دہشت گردی کی دفعات لگا دی جاتی ہیں جو آزادی اظہارِ  رائے پر خود ساختہ پابندی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کو لگام دینے کی باتیں کرنے والے اینکرز بھی اب اپنی آواز لوگوں تک پہنچانے کے لیے اسی میڈیم کا سہارا لے رہے ہیں۔

ساتھ ہی نے زور دیا کہ 2016کے سائبر ایکٹ پر نظر ثانی ہونی چاہیے تاکہ ایف آئی اے اور پی ٹی اے کے خفیہ اختیارات ختم ہوسکیں کیونکہ اس ایکٹ کے ذریعے مرضی کے مطابق لوگوں کو حراست میں لیا جاتا ہے۔

سیمینار کے اختتام پر چیئرمین پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ ’آزادی اظہارِ رائے کبھی کسی دور میں آسانی سے نہیں ملی۔قیمت ادا کرنے کو تیار رہیں، حق پر قائم رہنے والے ایک دن اپنا موقف تسلیم کرانے میں ضرور کامیاب ہوتے ہیں۔ آزادی پلیٹ میں رکھ کر کوئی نہیں دیتا، اس کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔‘

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے بعد میں اپنے ششماہی اجلاس کے اختتام پر ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ انہیں ’سیاسی اختلاف رائے کو دبانے کی حالیہ حکومتی کوششوں پر سخت تشویش ہے۔ اس بات کے پریشان کن اشارے موجود ہیں کہ پارلیمنٹ کا کردار کم ہوتا جا رہا ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ حکومت آرڈیننس کے ذریعے نظام حکومت چلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ حال ہی میں نافذ کیا گیا خیبرپخونخوا ایکشنز (اِن ایڈ آف سول پاور) آرڈیننس 2019ء نہ صرف بعض بنیادی حقوق کے منافی ہے بلکہ یہ جمہوری اصولوں کے بھی خلاف ہے۔‘

'حکومت کو سپریم کورٹ کے 2014ء کے مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق فیصلے پر عمل درآمد کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ ہماری رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کو عقیدے پر مبنی تشدد اور توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کا شکار ہو رہی ہیں۔

'ایچ آر سی پی کے حالیہ فیکٹ فائنڈنگ مشن ظاہر کرتے ہیں کہ ریاستی عناصر جبری گمشدگیوں کو اب بھی جبر کے ذرائع کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینے کے لیے قانون سازی کی اشد ضرورت ہے تاکہ مجرموں کو ایک منظم اور مؤثر طریقے سے جوابدہ ٹھہرایا جا جاسکے۔

'بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں حالیہ اضافہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بربریت کو ظاہر کرتا ہے۔ بچے غیرمحفوظ ترین گروہوں میں شامل ہیں، اور ریاست اور معاشرے دونوں کو ہی ان کے تحفظ کی ذمہ داری لینا ہوگی۔

' ہم ریاست کی جانب سے میڈیا ٹرائبیونلزکے قیام کے ذریعے اظہار رائے کی آزادی کو دبانے یا میڈیا کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی کوششوں کی سخت مذمت کرتے ہیں۔

' ہم ریاست پر زور دیتے ہیں کہ وہ گلگت – بلتستان کو صوبے کا درجہ دے اور یقینی بنائے کہ اس کے لوگوں کو ان تمام بنیادی حقوق تک رسائی حاصل ہو جو پاکستان کے دیگر شہریوں کو حاصل ہیں۔

'ہمارے لیے یہ امر پریشان کن ہے کہ  خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے طالبات میں برقعے تقسیم کیے جانے کی شکل میں انتہا پسندی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے۔ ایسے اقدامات خواتین کی آزادیوں کو محدود کرنے کی واضح اور طالبانائزیشن کے فروغ کی ایک دانستہ کوشش ہے۔

' حکومت صحت اور تعلیم کے لیے مزید فنڈز مختص کرنے کی بجائے ان شعبوں کے وسائل میں کمی کی جانب مائل دکھائی دیتی ہے۔ ہم حکومت کو یاد دلاتے ہیں کہ ریاست کی یہ آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو تعلیم تک رسائی دے اور اس کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک بھر میں صحت کی معیاری سہولیات کی فراہمی کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرے۔

’ہمیں ہندوستانی حکومت کی جانب سے کشمیر میں لاک ڈاؤن پر گہری تشویش ہے۔ اس اقدام کی وجہ سے انسانی حقوق کا بحران پیدا ہوچکا ہے۔ ہمیں سرحد کی دونوں اطراف سے جاری ہونے والے جنگ سے متعلق بیانات پر بھی سخت تشویش ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں کو فوری طور پر تسلیم کرنا ہوگا کہ کشمیر کے عوام کو خودارادیت کا حق حاصل ہے اور یہ کہ علاقائی امن کا تحفظ اور فروغ دونوں ممالک کی ذمہ داری ہے۔

'ہم ماحولیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے حوالے سے عالمی اور ملکی تحاریک کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور ریاست پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس انتباہ پر توجہ دے  کہ اگر اس نے ماحول کو پہنچنے والے ناقابلِ تلافی نقصان پر قابو پانے کے لیے اقدامات نہ کیے تو اس کے نتیجے میں مستقبل کی نسلیں زندگی کے حق سے محروم ہوجائیں گی۔'

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان