بحریہ ٹاؤن کے اسلام آباد شاپنگ مال کی نیلامی کا حکم واپس: ایف بی آر

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض سے 24 ارب روپے سے زائد ٹیکس کی وصولی کے لیے اس عمارت کی نیلامی کا اعلان کیا تھا۔

محصولات کے وفاقی ادارے فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) نے منگل کو بحریہ ٹاؤن کے وفاقی دارالحکومت میں مال آف اسلام کی نیلامی کا آرڈر واپس لے لیا ہے۔

ایف بی آر نے مال آف اسلام کی نیلامی کے لیے تین ستمبر کی تاریخ دے رکھی تھی تاہم ڈپٹی کمشنر ایف بی آر سہیل عباس نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کیا کہ نیلامی کا آرڈر واپس لے لیا گیا ہے۔

اس سے قبل اس کی اس سال جون میں بھی نیلامی متلوی کر دی گئی تھی۔ مال آف اسلام آباد، وفاقی دارالحکومت کے مرکز میں بلیو ایریا کی ایک بلند کمرشل عمارت ہے۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے بحریہ ٹاؤن جو ملک ریاض کی ملکیت ہے، سے 24 ارب روپے سے زائد کا ٹیکس نہ دینے کی وجہ سے اس عمارت کو نیلام کرنے کا اشتہار دے رکھا تھا۔

یہ اشتہار رواں برس مئی میں دیا گیا اور جون میں نیلامی کرنی تھی۔ بحریہ ٹاؤن نے نیلامی کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہونے کی وجہ سے نیلامی التوا کا شکار ہوئی۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب کو نیلامی کا عمل مکمل کرنے کی اجازت دی جسے آج ایف بی آر نے واپس لے لیا۔

جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس محمد آصف نے کیس کی منگل کو سماعت کی جہاں ایف بی آر حکام نے بتایا کہ پہلے الاٹیز کی تصدیق کریں گے پھر نیلامی کے حوالے سے دیکھیں گے۔

ملک ریاض نے گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں اپنے ذمے تمام واجب الادا ٹیکسز ادا کرنے کی پیشکش کی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عدالت نے ایف بی آر کا حکم نامہ واپس لینے پر کیس نمٹا دیا۔

اس عمارت میں جائیداد خریدنے والے پریشان تھے کہ اُن کی جمع پونجی سے خریدی پراپرٹی کو کس قانون کے تحت نیلام کیا جا رہا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے جب عمارت میں موجود انتظامیہ سے بات کی تو انہوں نے کہا تھا کہ نیلامی سے لوگوں کی دکانوں یا رہائشی اپارٹمنٹس پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ انہوں نے خریدی ہے اور وہ ان کے نام ہے، جو جائیداد ملک ریاض کے نام نہیں یا بحریہ ٹاؤن کا اثاثہ نہیں تو اسے نیلامی سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

’البتہ عمارت کے انتظامی امور متاثر ہوں گے کیونکہ نیلامی ہونے کی صورت میں نیا مالک ان امور کا ذمہ دار ہو گا۔‘

یہ ملک ریاض کے بحریہ ٹاؤن کا منصوبہ تھا۔ کچھ وقت کے لیے اس کو سیل کر کے تعمیراتی کام بھی روکا گیا تھا۔

اب تعمیراتی کام مکمل ہے بلکہ جنہوں نے سرمایہ کاری کر رکھی ہے انہیں دکانوں اور اپارٹمنٹس کی چابیاں بھی دے دی گئی ہیں۔ عمارت میں آٹھ خاندان رہائش پذیر ہیں۔

مال آف اسلام آباد کی 21 منزلیں اور چار تہہ خانے ہیں جو پارکنگ کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔

گراؤنڈ فلور سے تیسری منزل تک شاپنگ مال، چوتھی منزل پر فوڈ کورٹ، جبکہ پانچویں منزل سے بارویں فلور تک دفاتر کے لیے مختص ہے۔

تیرہویں فلور سے بیس فلور تک اپارٹمنٹس ہیں اور فلور پر 12 اپارٹمنٹس ہیں جن میں ایک، دو اور تین بیڈروم والے اپارٹمنٹس ہیں۔

سی ڈی اے کی طرف سے یہ بھی الزام ہے کہ دس برس قبل جب یہ پلاٹ نیلامی میں خریدا گیا تھا اور مال آف اسلام آباد کا جو نقشہ دیا گیا تھا اب تعمیر کے وقت کوررڈ ایریا نھی بڑھا کر خلاف ورزی کی گئی ہے۔

نیب کے ملک ریاض پر الزام

رواں برس جنوری میں نیب نے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے حوالے دھوکا دہی اور فراڈ، سرکاری اور نجی زمینوں پر قبضے کے معاملات پر نوٹس جاری کیا تھا۔ نیب سے جاری بیان کے مطابق ’ملک ریاض اور ان کے ساتھیوں نے بحریہ ٹاؤن کے نام پر کراچی، تخت پڑی راولپنڈی اور نیو مری میں زمینوں پر قبضے کیے، ملک ریاض نے سرکاری اور نجی اراضی پر ناجائز قبضہ کر کے بغیر اجازت نامے کے ہاؤسنگ سوسائٹیز قائم کرتے ہوئے لوگوں سے اربوں روپے کا فراڈ کیا ہے۔

ملک ریاض نے بحریہ ٹاؤن کے نام پر پشاور اور جام شورو میں زمینوں پر قبضے کیے، انہوں نے بغیر نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ زمینوں پر ناجائز قبضے کر کے ہاؤسنگ سوسائٹیز قائم کی ہیں۔‘

نیب کے بیان میں کہا گیا تھا کہ ’نہ صرف یہ بلکہ ملک ریاض اور ان کے ساتھی لوگوں سے دھوکا دہی کے ذریعے بھاری رقوم وصول کر رہے ہیں اور وہ اس وقت این سی اے کے مقدمے میں ایک عدالتی مفرور ہیں۔‘

نیب نے بیان میں کہا کہ ’ملک ریاض نیب اور عدالت دونوں کو مطلوب ہیں، نیب بحریہ ٹاؤن کے پاکستان کے اندر بے شمار اثاثے ضبط کر چکا ہے اور اب بحریہ ٹاؤن کے مزید اثاثہ جات کو ضبط کرنے کے لیے بلا توقف قانونی کارروائی کرنے جا رہا ہے۔‘

پس منظر: برطانیہ سے آنے والی رقم اور بحریہ ٹاؤن نیب کیسز

برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کی تحقیقات کے نتیجے میں بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے مقدمہ لڑنے کے بجائے برطانوی تحقیقاتی ایجنسی سے تصفیہ کر لیا تھا جس کے بعد این سی اے نے 190 ملین پاؤنڈز کی رقم ریاست پاکستان کی ملکیت قرار دے دی تھی۔

معلومات کے مطابق یہ رقم پاکستان کے قومی خزانے میں پہنچنے کے بجائے سپریم کورٹ کے اُس اکاؤنٹ تک پہنچی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو 460 بلین روپے ایک تصفیے کے تحت قسطوں میں ادا کر رہے تھے۔

یوں برطانیہ سے ریاست پاکستان کو منتقل ہونے والی رقم ملک ریاض کے اکاؤنٹ میں سپریم کورٹ کو ادائیگی کے لیے دے دی گئی۔ بنیادی طور پر نیب کے مطابق الزام یہی ہے کہ لگ بھگ 40 ارب روپے جو کہ قومی خزانے سے تھے، بحریہ ٹاؤن کے قرض کی مد میں ایڈجسٹ کیے گئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان