خیبر پختونخوا پریس قوانین میں ترامیم سے کیا شفاف نگرانی ممکن؟

ان ترامیم سے قبل سرکاری اشتہارات اور عوامی مفاد کے پیغامات جیسے ٹینڈرز، بھرتیوں کے اشتہارات، پبلک نوٹس وغیرہ صرف اخبارات اور ٹیلی ویژن تک محدود تھے۔

خیبر پختونخوا حکومت نے صوبائی اسمبلی سے پریس اینڈ نیوز پیپرز قوانین میں ترامیم منظور کر کے ٹی وی اور اخبارات کے علاوہ اب ڈیجیٹل میڈیا کو بھی اس قانون کا حصہ بنا دیا ہے۔

یہ ترامیم خیبر پختونخوا پریس، نیوز پیپرز، نیوز ایجنسیز اینڈ بک رجسٹریشن ایکٹ 2013 میں یکم ستمبر کو متعارف کیے گئے اور بل کے مطابق ترامیم کا مقصد جدید دور کے میڈیا رجحانات کے ساتھ چلنا اور تعلقات عامہ کو بہتر بنانا ہے۔

تاہم، صحافی اور سوشل میڈیا کے ماہر فدا عدیل متنبہ کرتے ہیں کہ اس نئے قانون پر عمل درآمد کی شفاف نگرانی کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ اب تو ٹی وی اور اخبارات بھی ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر موجود ہیں۔

اس بارے میں صوبائی وزیر قانون سے رابطہ کرکے ردعمل جاننے کی کوشش کی گئی ہے لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

اس ایکٹ میں یہ ترامیم رواں سال اگست میں خیبر پختونخوا اسمبلی میں پیش کی گئی تھیں، لیکن یکم ستمبر کو اسمبلی اجلاس میں انہیں منظور کیا گیا۔

نئی ترامیم کون سی ہیں؟

ان ترامیم سے قبل سرکاری اشتہارات اور عوامی مفاد کے پیغامات جیسے ٹینڈرز، بھرتیوں کے اشتہارات، پبلک نوٹس وغیرہ صرف اخبارات اور ٹیلی ویژن تک محدود تھے۔

تاہم اب اس ایکٹ کے شق نمبر تین میں اضافہ کر کے ڈیجیٹل اشتہاری ایجنسیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

 یعنی اب سرکاری اشتہارات اور دیگر مفاد عامہ کے پیغامات ڈیجیٹل ایجنسیوں کو بھی دیئے جائیں گے۔

بعض مبصرین کے مطابق ترامیم تو کیے گئے لیکن اب اس کے لیے رولز آف بزنس بنانے کی ضرورت ہے تاکہ شفافیت کو برقرار رکھا جا سکے۔

کاشف الدین سید ڈیجیٹل میڈیا ادارے ’پختون ڈیجیٹل‘ کے ایڈیٹر اور خیبر یونین آف جرنلسٹس کے صدر ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم دیکھ رہے ہیں کہ روایتی میڈیا جیسے ٹی وی اور اخبارات مسلسل ڈاؤن سائزنگ کر کے ڈیجیٹل کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے ترامیم کر کے ڈیجیٹل میڈیا کی حوصلہ افزائی قابل ستائش بھی ہے اور یہ وقت کی بھی ضرورت ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ترمیم میں وضاحت کی گئی ہے کہ ’ڈیجیٹل ایجنسیوں سے مراد وہ ایجنسیاں ہیں جو صوبائی محکمہ اطلاعات کے ساتھ رجسٹرڈ ہوں اور سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پر اشتہارات چلاتی ہوں۔‘

اسی طرح، نئی ترمیم میں آن لائن ڈیجیٹل اشتہارات کے علاوہ آؤٹ ڈور اشتہارات میں بھی ڈیجیٹل اشتہارات کی ایجنسیوں کو شامل کیا گیا ہے اور اب روایتی سائن بورڈز کے علاوہ اس میں آؤٹ ڈور ڈیجیٹل اشتہارات بھی شامل ہوں گے۔

پریس ایکٹ کے شق نمبر دو میں بھی ترمیم کی گئی ہے اور اب ڈیجیٹل میڈیا کے ادارے بھی اخبارات اور ٹی وی کے ساتھ شامل کیے گئے ہیں۔

کاشف الدین نے بتایا، ’اس میں بنیادی مسئلہ شفافیت کا ہے اور حکومت کو مزید قوانین بنا کر یہ واضح کرنا ہوگا کہ اصل ڈیجیٹل میڈیا ادارہ یا ڈیجیٹل صحافی کون ہے، تاکہ اس قانون کا غلط استعمال نہ ہو سکے۔‘

میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی پاکستان میں ڈیجیٹل میڈیا کے معاملات پر کام کرنے والا ادارہ ہے۔ اسی ادارے کے سربراہ اسد بیگ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سوشل میڈیا انفلوئنسرز‘ کی ٹرمینالوجی میرے خیال میں ماضی میں متنازعہ رہی ہے۔

’تاہم چونکہ یہ ایک ٹرینڈ بنا ہے پاکستان میں اور ہم نے پنجاب اور وفاق میں دیکھا ہے لیکن اس کا کوئی کردار نظر نہیں آیا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ مجموعی طور پر سوشل میڈیا انفلوئنسرز کا ترمیم میں شامل کرنا ان کے خیال میں قدرے متنازع ہو سکتا ہے۔

اسد بیگ نے بتایا کہ  ماضی میں ’سوشل میڈیا انفلوئینسرز‘ نفرت انگیز مواد شیئر کرنے میں ملوث پائے گئے تھے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آگے چل کے ان سوشل میڈیا انفلوئنسرز کا کیا اثرات آئیں گے۔

ترمیم کے مطابق 'سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا سے مراد وہ ویب سائٹس، سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز یا ایپلی کیشنز ہیں جو کمیونیکیشن، کمیونٹی بیسڈ ان پٹ یا مواد شیئر کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔‘

ڈیجیٹل اداروں کے ساتھ ساتھ، نئی ترامیم میں 'سوشل میڈیا انفلوئنسرز' کو بھی باقاعدہ ایکٹ کا حصہ بنایا گیا ہے اور اس کی تعریف بھی کی گئی ہے کہ سوشل میڈیا انفلوئنسرز کون ہوں گے۔

ترمیم میں لکھا گیا ہے، 'سوشل میڈیا انفلوئنسرز سے مراد بلاگرز، وی لاگرز، سیلیبریٹیز، انٹرپرینیور، یا کوئی بھی شخص ہے جو معلومات، تعلیم، تفریح یا آگاہی فراہم کرنے کے لیے سوشل میڈیا پیج چلاتا ہو اور ان کے پاکستان میں فالوورز موجود ہوں۔'

پریس ایکٹ میں ترمیم کے حوالے سے مبصرین کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا جدید دور میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور اس کو باقاعدہ قانون میں شامل کرنا ایک اچھا اقدام ہے، تاہم ماضی کی غلطیاں دہرانی نہیں چاہییں۔

ماضی میں پاکستان تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا میں سوشل میڈیا انفلوئنسرز بھرتی کیے تھے اور ان کو ماہانہ 25 ہزار روپے دیے جاتے تھے۔ یہ انفلوئنسرز حکومتی کارکردگی کو سوشل میڈیا پر اجاگر کرتے تھے، لیکن ان پر یہ تنقید کی جاتی رہی کہ وہ سرکاری پیسے پر پی ٹی آئی کے ایجنڈے کی تشہیر کر رہے تھے۔

فدا عدیل پشاور میں مقیم ایک صحافی ہیں اور ان کا اپنا یوٹیوب چینل ہے جس پر وی لاگز کے ذریعے وہ آمدن حاصل کرتے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پہلے سرکاری اشتہارات اخبارات اور ٹی وی کو ملتے تھے، لیکن اب ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے اور اسے بھی اس میں شامل کرنا ایک بہتر اقدام ہے۔

فدا عدیل نے بتایا، 'ڈیجیٹل میڈیا سے حکومتی کام کی تشہیر بھی زیادہ ہوگی اور اس سے حکومت کو عوام کے ساتھ رابطہ جوڑنا بھی آسان ہوگا، لیکن ماضی کے تجربات نہیں دہرانے چاہییں کہ منظور نظر لوگوں کو نوازا جائے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی