گھریلو تراکیب سے بچوں میں غذائی کمی دور کرتی پاکستانی مائیں

سندھ کے مختلف دیہات میں سماجی کارکن ماؤں کو غذائیت سے بھرپور اجزا کے بارے میں آگاہی دے رہے ہیں اور خوراک سے متعلق غلط فہمیوں کو دور کر رہے ہیں۔

29 جولائی 2025 کو لی گئی اس تصویر میں سندھ کے ضلع سجاول کے گاؤں فتح محمد سومرو میں یونیسیف کے غذائیت کے پروگرام کے دوران ایک خاتون ہیلتھ ورکر (ر) ماؤں کو اپنے بچوں کے لیے غذائیت سے بھرپور کھانا تیار کرنے کا طریقہ سکھا رہی ہے (رضوان تبسم / اے ایف پی) 

بھوکے بچوں کو گود میں لیے، ماؤں کا ایک گروپ ایک استاد کی رہنمائی میں سوجی کی ڈش تیار کر رہا ہے۔ یہ ایک ایسی کوشش ہے جو پاکستان کے جنوبی علاقوں میں ہر دو میں سے ایک بچے کو متاثر کرنے والی غذائی قلت کا مقابلہ کرنے کے لیے کی جا رہی ہے۔

بحیرہ عرب کے ساحل کے ساتھ پھیلا ہوا شہر کراچی ملک کا معاشی حب اور سندھ میں واقع ہے، لیکن صرف چند گھنٹوں کے فاصلے پر واقع دیہی علاقوں کے بچے شدید جسمانی کمزوری اور نشوونما کی رکاوٹ جیسے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔

سجاول کے خشک گاؤں میں، ہڈیوں کے نمایاں خدوخال والے سست بچے جھلسا دینے والی گرمی میں نڈھال ہیں، جبکہ سماجی کارکن ماؤں کو غذائیت سے بھرپور اجزا کے بارے میں آگاہی دے رہے ہیں اور خوراک سے متعلق غلط فہمیوں کو دور کر رہے ہیں۔

25 سالہ شہناز کہتی ہیں: ’پہلے ہم صرف آلو دیتے تھے کیونکہ وہ ہمیشہ گھر میں دستیاب ہوتے تھے۔‘

لیکن جب سے انہوں نے ایک سال تک تربیتی کلاسز لیں، انہوں نے اپنے چھ بچوں، جو کمزور اور اکثر بیمار رہتے تھے، کی خوراک مکمل طور پر بدل دی ہے۔

اب وہ اس بات پر قائل ہو چکی ہیں کہ بچوں کو متوازن خوراک ملنی چاہیے، چنانچہ انہوں نے دالیں اور سوجی جیسے سستے اجزا ان کے کھانوں میں شامل کرنا شروع کیے، جس کے نتیجے میں ان کی بیٹی کی غذائی کمی دور ہو گئی ہے۔

2018  میں ہونے والے قومی سروے میں بتایا گیا کہ غربت زدہ دیہی سندھ میں، پانچ سال سے کم عمر کے 48 فیصد بچے غذائی کمی کا شکار ہیں، جبکہ 20 فیصد شدید ترین قسم کی غذائی کمی یعنی ’ویسٹنگ‘ میں مبتلا ہیں۔

کلاس کے دوران، ایک سماجی کارکن عظمیٰ، ماؤں کو سوجی کے استعمال سے کھانا پکانے کا طریقہ سکھاتی ہیں، جو مارکیٹ میں بآسانی دستیاب ہے۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’سوجی سستی ہوتی ہے۔ 50 روپے میں خریدی گئی سوجی ایک ہفتے تک کافی ہوتی ہے اگر آپ اسے چھ ماہ کے بچے کو روزانہ ایک یا دو چمچ دیں۔‘

سندھ کی آبادی 5 کروڑ 50 لاکھ ہے۔ یہاں مانع حمل طریقے ممنوع سمجھے جاتے ہیں اور بڑے خاندان عام ہیں۔ اس صوبے میں یونیسف کے تیار کردہ پروگرام سے اب تک 3,500 مائیں مستفید ہو چکی ہیں۔

علاقے کی بہت سی ماؤں کی طرح، 23 سالہ کلثوم، جو اپنے چھٹے بچے سے حاملہ ہیں اور جن کے تمام بچے وقت سے پہلے اور کم وزن پیدا ہوئے، کبھی صرف اپنے بچوں کو تلی ہوئی روٹی کے ٹکڑے ہی کھلایا کرتی تھیں۔

انہوں نے کہا: ’ایک بچہ فوت ہو گیا، اور سب سے چھوٹا بہت کمزور ہے، تو مجھے ان کلاسز میں جانے کا مشورہ دیا گیا۔‘

مرچ مصالحے نہیں!

والدین کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ بچوں کو چھ ماہ کی عمر کے بعد ٹھوس خوراک دینا شروع کریں، مگر دیہی سندھ میں اس کا مطلب اکثر بڑوں کا بچا ہوا مصالحے دار کھانا ہوتا ہے، جو چھوٹے بچوں کے لیے موزوں نہیں ہوتا۔

یونیسف کے ماہرِ غذائیت مظہر اقبال کے مطابق: ’اصل مسئلہ مختلف اقسام کی خوراک نہ ملنا ہے۔‘

پاکستان میں 38 فیصد بچے روزانہ کی خوراک میں صرف دو یا اس سے بھی کم قسم کے غذائی اجزا استعمال کرتے ہیں، جبکہ یونیسف آٹھ اقسام کی خوراک تجویز کرتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گوشت خاص مواقع پر ہی کھایا جاتا ہے، حالانکہ سستے پروٹین متبادل جیسے چکن کی کلیجی، اُبالی ہوئی ہڈیاں، دالیں اور پھلیاں دستیاب ہیں۔

پھل اور سبزیاں اکثر تَل کر بنائی جاتی ہیں، جس سے ان کی غذائیت ضائع ہو جاتی ہے۔

بختاور کریم نے پروگرام میں اس وقت شمولیت اختیار کی جب ان کا بچہ خون کی کمی (انیمیا) کے باعث انتقال کر گیا۔

انہوں نے اپنی ایک سالہ بیٹی، جن کے سر پر محض چند جھاڑ نما بال تھے، کے پھولے ہوئے پیٹ کو دیکھتے ہوئے افسوس سے کہا: ’میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ ہم کبھی کھاتے ہیں، کبھی نہیں۔‘

گاؤں کے 72 فیصد بچوں کی طرح ان کی بیٹی بھی نشوونما کی کمی (سٹنٹنگ) کا شکار ہے، جو پاکستان کی اوسط شرح 42 فیصد سے کہیں زیادہ ہے اور یہ دنیا کی بلند ترین شرحوں میں سے ایک ہے۔

سٹنٹنگ کا براہِ راست تعلق دماغی نشوونما اور جسمانی افزائش سے ہوتا ہے، اور اس کے دیرپا جسمانی و ذہنی اثرات ہو سکتے ہیں۔

غیر محفوظ پانی اور ناقص صفائی کے سبب غذائی کمی کے ساتھ ساتھ، بچے اکثر ڈینگی، ملیریا، قے، اسہال، یا پیشاب کی دشواری جیسے مسائل میں بھی مبتلا رہتے ہیں، اور ان کے پیٹ غیر معمولی طور پر پھولے ہوتے ہیں۔

خواتین کے لیے بچا ہوا کھانا

غذائی کمی کا یہ ظالمانہ چکر ماؤں سے شروع ہوتا ہے۔

ماہرِ غذائیت کے مطابق: ’جلد شادیوں اور بار بار حمل کی وجہ سے سندھ میں 45 فیصد سے زائد خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔ اس سے کم وزن والے بچوں کی پیدائش کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، جو بعد میں غذائی کمی میں مبتلا ہوتے ہیں۔‘

سجاول میں، جہاں صرف ایک چوتھائی آبادی خواندہ ہے، خوراک سے متعلق غلط عقائد خواتین کو اہم غذائی اجزا سے محروم رکھتے ہیں۔

پاکستان میں گلوبل الائنس فار امپرووڈ نیوٹریشن کی سربراہ فرح ناز کو اکثر یہ وضاحت دینا پڑتی ہے کہ انڈے اور خشک میوہ جات خواتین میں ماہواری کے دوران زیادہ خون آنے کا سبب نہیں بنتے۔

سماجی روایات کے مطابق خواتین پہلے مردوں کو کھانا پیش کرتی ہیں اور خود بچا ہوا کھاتی ہیں، حالانکہ وہ کھیتوں میں سخت جسمانی محنت بھی کرتی ہیں، یہ بھی ان کی خراب صحت کا باعث بنتا ہے۔

’اور جب کھانا کم پڑ جائے تو سب سے پہلے انہی کا حصہ کم کیا جاتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین