قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے اسرائیلی حملوں نے صرف عرب ملکوں کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
دوحہ میں مقیم حماس کی لیڈر شپ کو نشانہ بنائے جانے کے بعد نہ صرف غزہ میں امن کے قیام کی راہیں مسدود ہو گئی ہیں بلکہ قطر سمیت خلیجی ممالک کے ساتھ اسرائیل اور امریکہ دونوں کے تعلقات پر بھی سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔
اسرائیل نے اس آپریشن کو Summit of Fire کا نام دیا ہے، جس کے لیے مہینوں منصوبہ بندی کی گئی۔ اس آپریشن کی نگرانی خود نیتن یاہو نے انٹیلی جنس ہیڈ کوارٹر میں بیٹھ کر کی۔
دوحہ کے قریب سینٹ کام کا ریجنل ہیڈ کوارٹر ہے، جس کو مطلع کیے بغیر یہ حملہ نہیں ہو سکتا تھا۔ قطری وزیراعظم محمد بن عبد الرحمٰن بن جاسم الثانی کا کہنا ہے کہ امریکہ نے انہیں ان حملوں کے بارے میں اس وقت بتایا جب پہلے دھماکے کو دس منٹ گزر چکے تھے۔
اسرائیل کے ساتھ ساتھ ان حملوں کے امریکہ اور قطر کے ساتھ مراسم پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
قطر نے اسی سال مئی میں صدر ٹرمپ کو دورۂ قطر کے موقع پر 400 ملین ڈالرمالیت کا بوئنگ 747 طیارہ تحفے میں دیا تھا اور اسی دورے میں قطر نے امریکہ کے ساتھ 243.5 ارب ڈالر کے سودے بھی کیے تھے۔ صدر ٹرمپ جب 2017 میں پہلی بار خلیجی ممالک کے دورے پر آئے تو انہوں نے قطر کو دہشت گردی کا حامی ملک قرار دیا تھا، تاہم اسی ٹرمپ نے حالیہ دورۂ قطر میں امیر قطر کو ایک ’شاندار آدمی‘ قرا ر دیا ہے۔
معاہدہ اوسلو، جس نے قطر کو اسرائیل کے قریب کیا
ستمبر1993 میں ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں پی ایل او اور اسرائیل کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس میں دو ریاستی حل کی جانب فریم ورک بنانے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا۔ یہیں سے قطر اور اسرائیل کے درمیان سفارت کاری کا آغاز ہوا اور اسی مہینے دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ میں خفیہ ملاقات ہوئی، جو 1996 میں دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کا نقطۂ آغاز بن گئی۔
بتایا گیا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ہاں تجارتی سطح کے دفاتر قائم کریں گے۔ دراصل یہی دفاتر غیر رسمی سفارت خانوں کا درجہ رکھتے تھے۔ قطر اُس وقت خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک میں پہلا ملک تھا جس نے اسرائیل کے ساتھ اس سطح پر تعلقات جوڑے تھے۔
اس دوران اسرائیل نے قطر سے گیس خریدنے پر بھی آمادگی ظاہر کی۔ 1996 میں اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم شمعون پریز نے قطر کا سرکاری دورہ بھی کیا۔ قطر میڈرڈ کانفرنس کے بعد فلسطین میں قیام امن کے لیے بھی سرگرم کردار رہا۔ تاہم 1996 میں بن یامین نتن یاہو کے اقتدار میں آنے اور مغربی دیوار کی سرنگ کھولنے کے اعلان کے بعد دونوں ملکوں میں کشیدگی پیدا ہو گئی۔ 1997 میں دوحہ میں دونوں ممالک کے وزرائے تجارت کے درمیان ملاقات ہوئی جس پر عرب دنیا میں خاصی ناراضگی پیدا ہوئی۔
فلسطین میں 2000 میں دوسری انتفادہ تحریک شروع ہوئی تو قطر نے علاقائی ممالک کے دباؤ پر دوحہ میں اسرائیل کا تجارتی دفتر بند کر دیا تاہم دونوں ممالک کے درمیان خفیہ سفارت کاری جاری رہی۔ قطر چاہتا تھا کہ وہ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان پل کا کردار ادا کرے تو شاید اس سے دیرپا امن کی راہیں ہموار ہو سکیں۔
2003 میں قطر اور اسرائیل کے وزرائے خارجہ پیرس میں ملے۔ ایک معاہدے کے تحت اسرائیل نے 2005 میں غزہ سے انخلا کیا تو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں پھر گرم جوشی پیدا ہو گئی۔ تجارتی دفاتر جو دراصل غیر رسمی سفارت خانے تھے، دوبارہ فعال ہو گئے۔
2008 میں اسرائیلی وزیرِ خارجہ تزیپی لونی نے قطر کا تاریخی دورہ بھی کیا لیکن 09-2008 میں غزہ میں ہونے والے اسرائیلی آپریشن کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے تعلقات پھر منقطع ہو گئے تھے۔
غزہ کی پٹی، جسے قطر مالی معاونت فراہم کرتا رہا
فلسطین کے اعلانِ آزادی کے بعد قطر وہ پہلا ملک تھا، جہاں 1988 میں فلسطین کا سفارت خانہ قائم ہوا تھا۔ یاسر عرفات کے دور میں قطر کے سربراہوں نے دو بار غزہ کا دورہ کیا تھا۔ ا س کے بعد حماس کے دور میں 2012 میں بھی قطری سربراہ غزہ گئے تھے، جس سے فلسطینی اتھارٹی اور قطر کے درمیان تنازع بھی پیدا ہوا کیونکہ فلسطینی اتھارٹی کو قطر کی امداد پر تحفظات تھے۔
اسرائیل بھی فلسطینی اتھارٹی کے مقابلے میں قطر کو زیادہ اہمیت دیتا تھا۔ قطر اسرائیل اور حماس دونوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے اور انہیں آگے بڑھانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ جب بھی فلسطینی رہنماؤں اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات ہوتے، قطر ان کا اہم پارٹنر بن جاتا۔ 2012 میں امریکہ کے کہنے پر قطر نے حماس کے رہنماؤں کو پناہ دی تاکہ حماس اور اسرائیل کے درمیان امن مذاکرت قطر کی میزبانی میں ہو سکیں۔
2013 میں جب اسرائیل نے یمن سے 60 یہودیوں کو نکال کر اسرائیل آباد کرنا چاہا تو یہ آپریشن بھی قطری تعاون سے ہی ممکن ہوا تھا۔ اسرائیل کی مرضی سے غزہ کے انتظام و انصرام میں قطر مرکزی کردار ادا کرتا رہا مگر اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو یہ بھی کہتے رہے کہ قطر کے پیسوں سے حماس کو مدد مل رہی ہے۔
2012 سے 2018 تک قطر نے غزہ کو 1.1 ارب ڈالر کی امداد دی تھی۔ نتن یاہو کا خیال تھا کہ قطر کی امداد سے حماس کو ایران کی طرف دیکھنے کا موقع نہیں ملے گا تو دوسری جانب حماس کا دل بھی نرم رہے گا، جس سے دیرپا امن کی راہیں نکل سکتی ہیں۔
قطر کے پیسوں سے اسرائیلی شہر میں فٹ بال سٹیڈیم بنایا گیا
فٹ بال کے ورلڈ کپ مقابلے 2022 میں قطر میں ہونا طے پائے تو یہ سوال اٹھا کہ اسرائیل کی فٹ بال ٹیم نے اگر ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کر لیا تو کیا قطر اسے آنے کی اجازت دے گا؟
کیونکہ فیفا کے قوانین کے مطابق جہاں ورلڈ کپ ہوتا ہے وہ ملک تمام ممالک کی ٹیموں اور ان کے شہریوں کو آنے کی اجازت بھی دیتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان رسمی تعلقات نہ ہونے کے باوجود قطر نے نہ صرف اسرائیل کی ٹیم بلکہ اس کے شہریوں کو بھی قطر آنے کی اجازت دی۔
اسرائیل سے دوحہ خصوصی فلائٹس چلائی گئیں جن پر اسرائیلی اور فلسطینی دونوں تماشائیوں نے اکٹھا سفر بھی کیا۔ بات یہیں پر نہیں رکی بلکہ قطر کی نیشنل اولمپک کمیٹی نے اسرائیل کے ساتھ مل کر اسرائیل میں ایک سٹیڈیم بھی بنا ڈالا جس کا نام دوحہ سٹیڈیم رکھا گیا۔
غزہ حملوں کے بعد تعلقات کی نوعیت بدل گئی
خلیج تعاون کونسل کے چھ رکن ممالک ہیں جن میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اومان، بحرین، کویت اور قطر شامل ہیں۔ ان میں صرف بحرین اور متحدہ عرب امارات نے 2020 میں ابراہیمی معاہدے کے تحت اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قطر کے اسرائیل کے ساتھ قریبی رابطے استوار ہونے کے باوجود وہ اس بات پر قائم رہا کہ دو ریاستی حل کے بغیر وہ اسرائیل کے ساتھ رسمی تعلقات قائم نہیں کرے گا۔ اسرائیل نے بھی اسے غزہ کی پٹی میں حماس کے ساتھ شریک رکھا تاکہ قطر حماس پر اپنا اثرورسوخ بڑھا سکے۔
قطر کی اخوان المسلمین اور ایران کے ساتھ قربت کی وجہ سے 2017 میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے قطر کا بائیکاٹ کر دیا تھا، تاہم ٹرمپ کی ثالثی کے نتیجے میں 2020 میں عرب ممالک کی قطر کے ساتھ صلح ہو گئی تھی۔
7 اکتوبر2023 کو جب حماس نے اسرائیل پر حملے کیے تو اس کے بعد قطر ہی اسرائیل اور حماس کے درمیان رابطے کا فریضہ سر انجام دیتا رہا۔ موساد کے ڈائریکٹر ڈیوڈ برنیا نے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے قطر کے متعدد دورے کیے۔ قطر نے بھی نے اسرائیل میں رابطہ کاری کے لیے دفتر بنا لیا۔ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حماس اور اسرائیل میں جتنے بھی مذاکرات ہوئے قطر ہی ان میں بطور ثالث شامل رہا۔
جیسے جیسے غزہ پر اسرائیلی بمباری بڑھتی گئی تو یرغمالیوں کی رہائی میں بھی تاخیر ہوتی گئی۔ اسرائیل کا خیال تھا کہ قطر شاید حماس پر خاطر خواہ دباؤ نہیں ڈال رہا۔ نومبر2024 میں قطر نے اپنی ثالثی کی کوششوں کو اس وقت تک معطل کرنے کا اعلان کر دیا جب تک کہ دونوں فریقین جنگ بندی پر آمادہ نہیں ہو جاتے۔ جب ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ بر سرِ اقتدار آئے تو ان کی ایما پر قطر ایک بار پھر امن مذاکرات میں متحرک ہو گیا۔
قطر کے ساتھ اسرائلی کشیدگی کی ایک وجہ الجزیرہ بھی ہے
غزہ میں گزشتہ دو سال سے زائدہ جاری رہنے والی بمباری کی وجہ سے 270 صحافی اور میڈیا ورکز ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں قطری چینل الجزیرہ کے بھی پانچ صحافی شامل ہیں۔
اسرائیل کی قطر سے ناراضگی کی ایک وجہ الجزیرہ کی غزہ جنگ کی کوریج بھی ہے، جس کے بارے میں اسرائیل کا خیال ہے کہ یہ انتہا پسندانہ اور اسرائیل مخالف نظریات کو فروغ دینے کا سبب بن رہی ہے۔
اسرائیل الجزیرہ کے بعض صحافیوں پر حماس کے کارکن ہونے کا بھی الزام لگاتا ہے جس کی وجہ سے اسرائیل نے مئی 2024 میں الجزیرہ کے دفاتر بند کر دیے تھے۔ بعد میں ستمبر 2024 میں غزہ میں الجزیرہ کے دفاتر پر چھاپہ مار کر اس کی نشریات روک دی تھیں، تاہم الجزیرہ اسے اپنی آزادانہ آواز کو دبانے کی کوشش قرار دیتا ہے۔
کیا دوحہ حملوں کی ایک وجہ قطر گیٹ سکینڈل بھی ہے؟
بعض مبصرین کہتے ہیں کہ اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کے خلاف جو کیسز چل رہے ہیں، ان میں سب سے اہم کیس قطر گیٹ سکینڈل ہے، جس میں اس کے قریبی مشیروں پر قطر سے پیسے لینے کا الزام ہے، اس لیے نتن یاہو نے اس سکینڈل کے پس منظر میں دوحہ پر حملہ کیا، تاکہ یہ تاثر زائل کیا جا سکے کہ قطر کے زیرِ اثر ہیں۔
ممتاز اسرائیلی اخبار ہارٹز کے مطابق مئی 2025 میں اسرائیلی حکام کی جانب سے وزیراعظم نتن یاہو کے دو میڈیا مشیروں جوناتھن یورچ اورعلی فیلڈسٹین پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ ایک امریکی فرم ’تھرڈ سرکل‘ سے پیسے لے کر قطری مفادات کے لیے کام کر رہے تھے تاکہ جنگ میں قطر کے امیج کو بہتر بنا کر پیش کیا جا سکے۔
ان مشیروں کو گھروں میں نظر بند رکھ کر ان کے خلاف تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ اس سکینڈل نے اسرائیل کے اندر نتن یاہو کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچایا ہے، تاہم قطری حکومت ان الزامات کی تردید کرتی آئی ہے۔
مئی 2025 میں اسرائیلی پارلیمنٹ کے اندر ایک بل پیش ہوا، جس میں قطر کو دہشت گردی کی حمایت کرنے والی ریاست قرار دیتے ہوئے اس کے ساتھ معاشی اور سفارتی تعلقات ختم کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ بل میں کہا گیا تھا کہ قطر حماس اور حزب اللہ کو مدد فراہم کرتا ہے، تاہم اسرائیلی خفیہ تنظیم موساد اور اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کی مخالفت کی وجہ سے اس بل کو واپس لے لیا گیا تھا۔