طالبان نے ٹرمپ کی بگرام ایئر بیس حوالگی کا مطالبہ مسترد کر دیا

افغان طالبان نے صدر ٹرمپ کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے امریکہ پر زور دیا کہ وہ ’حقیقت پسندی اور دانش مندی‘ کی پالیسی اپنائے۔

طالبان حکومت نے اتوار کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس مطالبے کو مسترد کر دیا جس میں انہوں نے افغانستان کی اہم بگرام ایئر بیس دوبارہ حاصل کرنے کا کہا تھا۔ 

ٹرمپ نے ہفتے کو افغان طالبان کے زیر انتظام ’بگرام ایئربیس واپس نہ کرنے کی صورت میں‘ افغانستان کو برے نتائج کی دھمکی دی تھی۔

انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر پوسٹ میں کہا تھا ’اگر افغانستان نے بگرام ایئر بیس ان لوگوں کو واپس نہیں دی، جنہوں نے اسے بنایا تھا، یعنی کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ تو اس کے برے نتائج سامنے آئیں گے۔‘

ٹرمپ نے یہاں تک کہا کہ ’ہم اس بارے میں افغانستان سے بات کر رہے ہیں۔‘ تاہم انہوں نے ان نام نہاد مذاکرات کی مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ 

جب ایک رپورٹر نے پوچھا کہ کیا وہ بگرام پر قبضے کے لیے امریکی فوج تعینات کرنے پر غور کریں گے تو انہوں نے کہا ’ہم اس پر بات نہیں کریں گے۔ ہم اسے واپس چاہتے ہیں اور فوراً چاہتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ میں کیا کرنے والا ہوں۔‘

اتوار کو طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹرمپ کے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے امریکہ پر زور دیا کہ وہ ’حقیقت پسندی اور دانش مندی‘ کی پالیسی اپنائے۔

انہوں نے ایکس (سابق ٹوئٹر) پر لکھا کہ افغانستان کی خارجہ پالیسی معیشت پر مرکوز ہے اور وہ تمام ممالک کے ساتھ باہمی اور مشترکہ مفادات کی بنیاد پر تعمیری تعلقات چاہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کو تمام دوطرفہ مذاکرات میں بارہا واضح طور پر بتایا گیا کہ افغانستان کی آزادی اور علاقائی سالمیت کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔

انہوں نے مزید کہا ’یاد دہانی کے طور پر، دوحہ معاہدے کے تحت امریکہ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ ’وہ افغانستان کی علاقائی سالمیت یا سیاسی خودمختاری کے خلاف طاقت استعمال نہیں کرے گا یا اس کی دھمکی نہیں دے گا اور نہ ہی اس کے داخلی امور میں مداخلت کرے گا۔‘ امریکہ کو اپنے وعدوں پر قائم رہنا چاہیے۔‘

ایسوسی ایٹڈ پریس کے سوالات کے جواب میں مجاہد نے یہ وضاحت نہیں کی کہ آیا ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ بگرام کے بارے میں واقعی بات چیت ہوئی ہے اور ٹرمپ کو کیوں یقین ہے کہ امریکہ اسے دوبارہ حاصل کر سکتا ہے۔

گذشتہ برس اگست میں طالبان نے بگرام پر اپنے قبضے کی تیسری سالگرہ امریکی فوجی سازوسامان کی شاندار نمائش کے ساتھ منائی تھی، جس پر وائٹ ہاؤس کی توجہ بھی گئی تھی۔ 

ٹرمپ بارہا اپنے پیش رو جو بائیڈن کو امریکہ کی طویل ترین جنگ کے بعد انخلا کے دوران ’سنگین نااہلی‘ کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے ہیں۔

گذشتہ ہفتے برطانیہ کے سرکاری دورے کے دوران ٹرمپ نے یہ عندیہ دیا کہ طالبان، جو 2021 میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے معاشی بحران، بین الاقوامی تسلیم نہ ہونے، اندرونی اختلافات اور حریف عسکری گروہوں جیسے مسائل سے دوچار ہیں، امریکہ کو فوجی طور پر واپس آنے کی اجازت دینے پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹرمپ نے طالبان کے بارے میں کہا ’ہم اسے واپس حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ انہیں ہم سے چیزیں چاہییں۔‘ 

اگرچہ امریکہ اور طالبان کے درمیان باضابطہ سفارتی تعلقات نہیں، لیکن دونوں فریق یرغمالیوں کے حوالے سے بات چیت کرتے رہے ہیں۔ 

طالبان نے رواں سال مارچ میں ایک امریکی شہری کو رہا کیا تھا جو دو سال سے زائد عرصہ قبل افغانستان میں سیاحت کے دوران اغوا ہوا تھا۔

طالبان نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے امریکی نمائندوں کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق کیا ہے، جس کا مقصد امریکہ اور افغانستان کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانا ہے۔

تاہم انہوں نے قیدیوں کے اس تبادلے کی تفصیلات نہیں بتائیں اور نہ ہی وائٹ ہاؤس نے کابل میں ہونے والی اس ملاقات یا طالبان کے بیان میں ذکر کردہ نتائج پر کوئی تبصرہ کیا۔ 

طالبان نے اپنی ملاقات کی تصاویر جاری کیں جن میں ان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کو ٹرمپ کے خصوصی ایلچی برائے یرغمالیوں کے معاملات، ایڈم بوہلر کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا