امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایک آسٹریلوی صحافی کو برہمی کا نشانہ بنانے کے بعد امریکہ میں غیرملکی نامہ نگاروں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
رپورٹرز کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے ویزا قوانین سخت کرنے اور دھمکی آمیز رویے نے ان کے لیے امریکہ میں صحافت کرنے کے حالات مزید مشکل بنا دیے ہیں۔
گذشتہ ہفتے آسٹریلوی نشریاتی ادارے ’اے بی سی‘ کے صحافی جان لیونز نے صدر ٹرمپ سے ان کے کاروباری معاملات پر سوال کیا تو صدر واضح طور پر اس سے برہم ہوگئے۔
ٹرمپ نے رپورٹر کو جواب دیتے ہوئے کہا: ’میری رائے میں آپ اس وقت آسٹریلیا کو بہت نقصان پہنچا رہے ہیں اور وہ میرے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ آپ کا وزیرِاعظم جلد ہی مجھ سے ملاقات کرنے آ رہا ہے، میں اسے آپ کے بارے میں بتاؤں گا۔ آپ نے بہت خراب تاثر چھوڑا ہے۔‘
یہ واقعہ واشنگٹن کے صحافتی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ ایک غیرملکی صحافی نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ٹرمپ کے طنز اور تنقید میں یہ فرق نہیں ہوتا کہ سامنے والا مقامی ہے یا غیرملکی۔ اصل پریشانی صحافیوں کے لیے ویزا قوانین میں متوقع تبدیلی ہے جس کے تحت پانچ سالہ مدت کم کر کے صرف 240 دن کی قابل تجدید ویزا مدت رکھی جا رہی ہے جبکہ چینی صحافیوں کے لیے یہ صرف 90 دن ہوگی۔
آسٹریلوی نامہ نگار نے سوال اٹھایا: ’240 دن کے ویزے کے ساتھ میں فلیٹ کیسے کرائے پر لوں؟ ڈرائیونگ لائسنس کیسے حاصل کروں؟ بچوں کو سکول میں کیسے داخل کراؤں؟ یہاں ذرائع بنانے میں وقت لگتا ہے، یہ سب ایک ڈراؤنا خواب بن جائے گا۔‘
آزادی صحافت پر خدشات
ایک یورپی خبررساں ادارے کے نمائندے نے کہا کہ غیرملکی صحافی امریکہ میں درپیش غیر یقینی صورت حال کا اگرچہ براہ راست ہدف نہیں ہیں لیکن یہ پالیسی ایک بڑے اور خطرناک رجحان کا حصہ ضرور ہے۔ ان کے مطابق وائٹ ہاؤس ایسے صحافیوں کو ترجیح دیتا ہے جو یا تو انتظامیہ کی پالیسیوں کے ساتھ چلیں یا خود ہی سنسرشپ پر آمادہ ہوں۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نامی تنظیم سے وابستہ کیتھرین جیکبسن نے بیان میں کہا کہ مختصر مدت کے ویزے ’ادارتی سنسرشپ کے ایسے ڈھانچے کو جنم دے سکتے ہیں جس میں رسائی کے لیے حکومتی بیانیے کی تائید لازمی بن جائے۔‘
نیشنل پریس کلب واشنگٹن کے صدر مائیک بالسامو نے بھی خبردار کیا کہ ایسی پالیسیوں سے بیرون ملک امریکی صحافیوں کے خلاف جوابی اقدامات ہو سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’ آزاد صحافت امریکہ کی سرحدوں پر ختم نہیں ہوتی۔ یہ اس وقت تک قائم ہے جب تک نامہ نگار یہاں بلا خوف اپنا کام کر سکیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگرچہ بیشتر غیرملکی صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہیں براہ راست وائٹ ہاؤس سے دشمنی کا سامنا نہیں لیکن ٹرمپ کے ’میک امریکہ گریٹ اگین‘ حلقے کے سیاسی رہنما اکثر غیرملکی رپورٹرز کو نشانہ بناتے ہیں۔
جرمنی میں سابق امریکی سفیر اور ٹرمپ کے قریبی ساتھی رچرڈ گرینل نے حال ہی میں جرمن ٹی وی چینل زیڈ ڈی ایف کے ایک صحافی کا ویزا منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کے مطابق مذکورہ صحافی ’سیاسی مخالفین کے خلاف تشدد کی ترغیب دیتے ہیں اور واشنگٹن میں صحافی کا بھیس بدل کر بیٹھے ہیں۔‘
گذشتہ ہفتے قدامت پسند اثرورسوخ رکھنے والے سوشل میڈیا شخصیت چارلی کرک کے قتل کے بعد امریکی نائب وزیر خارجہ کرسٹوفر لینڈاؤ نے سخت انتباہ جاری کیا کہ کوئی بھی غیرملکی اگر اس واقعے کی توہین یا جواز پیش کرتا دکھائی دے تو اس کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔
دوسری جانب کچھ غیرملکی اداروں کے لیے ٹرمپ کی واپسی فائدہ مند بھی رہی ہے۔ برطانوی چینل جی بی نیوز، جو انڈیا اور یورپ میں دائیں بازو کے نظریات کے قریب سمجھا جاتا ہے، کو حال ہی میں وائٹ ہاؤس میں خصوصی رسائی دی گئی ہے۔ چینل کے نمائندے کو صدر کے برطانیہ دورے کے موقع پر صدارتی طیارے میں نشست بھی ملی تھی۔
یہ صحافی جب پریس باکس میں ٹرمپ سے ملے تو انہوں نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ چینل کے ناظرین پوچھ رہے ہیں کیا وہ وزیراعظم کیئر سٹارمر کے ساتھ اپنا عہدہ بدلنا چاہیں گے؟