پاکستانی نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے منگل کو اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کو ’انسانی تباہی‘ سے تعبیر کرتے ہوئے اسے ’محتمل نسل کشی‘ قرار دیا ہے۔
فلسطین پر اسلامی ممالک تنظیم (او آئی سی) کی چھ رکنی کمیٹی کے منگل کو ہونے والے اجلاس میں پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے فلسطینی کاز کے لیے پاکستان کے غیر متزلزل عزم کو دہرایا اور اسے او آئی سی کے مقاصد کا مرکزی نکتہ قرار دیا۔
او آئی سی کی فلسطین پر چھ رکنی کمیٹی کا کام فلسطینی کاز کے لیے سیاسی، سفارتی اور قانونی حمایت کو متحرک کرنا ہے۔
کمیٹی میں پاکستان، سینیگال، گِنی، ملائشیا، ریاستِ فلسطین اور او آئی سی سیکرٹیریٹ شامل ہیں۔ یہ کمیٹی 1982 میں اسلامی وزرائے خارجہ کانفرنس کے 13ویں اجلاس کے دوران قائم کی گئی تھی۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ ’دنیا بین الاقوامی قانون اور جرائم کی بین الاقوامی عدالت کے احکامات کی صریحاً انحراف میں، اندھا دھند بمباری، فاقہ کشی، جبری نقل مکانی اور امداد سے انکار کے سبب غزہ میں ایک ’قابل فہم نسل کشی‘ کا مشاہدہ کر رہی ہے۔‘
انہوں نے زور دیا کہ دنیا بدستور مقبوضہ فلسطینی علاقے، بالخصوص غزہ میں جاری ’ہولناک المیے‘ کی گواہ ہے، جہاں شہری ڈھانچے کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا ہے اور عوام کی تکالیف تباہ کن سطح تک پہنچ چکی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے یاد دلایا کہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے اس صورتِ حال کو ’محتمل نسل کشی‘ کا معاملہ قرار دیا ہے اور اس پر زور دیا کہ اسرائیل کی جاری فوجی مہم بین الاقوامی قانون، بین الاقوامی انسانی قانون اور آئی سی جے کے لازم التعمیل احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے محصور شہری آبادی کو اجتماعی سزا دینے کی مذمت کی، جس میں اندھا دھند بمباری، بھوک، جبری نقل مکانی اور انسانی ہمدردی کی امداد سے انکار شامل ہے۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے خبردار کیا کہ مغربی کنارے، بشمول مشرقی مقبوضہ بیت المقدس میں آبادکاروں کا ’تشدد اور فوجی جارحیت بڑھ رہی ہے۔‘
اسحاق ڈار نے کہا کہ یہ مشرق وسطیٰ اور مسلم دنیا کے لیے ایک فیصلہ کن لمحہ ہے اور او آئی سی پر زور دیا کہ وہ مستقل جنگ بندی، انسانی ہمدردی کی بلا روک ٹوک رسائی، غیر قانونی بستیوں اور الحاق کے خاتمے، ضبط کی گئی زمینوں اور جائیدادوں کی واپسی، جنگی جرائم پر احتساب، اور ایک بین الاقوامی حفاظتی نظام کے نفاذ کے لیے دباؤ ڈالے۔
انہوں نے غزہ میں پناہ گزینوں کے نگراں ادارے انروا کے لیے نئی حمایت، عرب او آئی سی منصوبے کے تحت غزہ کی تعمیرِ نو، آئی سی جے کے فیصلوں پر عمل درآمد، اور فلسطینی عوام کے ناقابلِ تنسیخ حق خودارادیت کے ادراک کی اپیل کی، جو ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے ذریعے ممکن ہو۔