سوست بارڈر بدستور بند، پاکستان ۔ چین تجارتی سرگرمیاں معطل

تجارتی اشیا پر ٹیکس کے نفاذ کے خلاف سوست بارڈر پر تاجروں کی جانب سے احتجاجی دھرنا گذشتہ 64 روز سے جاری ہے۔

29 ستمبر 2015 کی اس تصویر میں ایک پاکستانی مزدور شمالی پاکستان کی وادی ہنزہ کے سرحدی شہر سوست کے بازار میں اپنی ٹوکری پر پلاسٹک کین لے جا رہا ہے (عامر قریشی / اے ایف پی)

گلگت بلتستان میں واقع سوست بارڈر گذشتہ دو ماہ سے زائد عرصہ سے بند ہے جس کی وجہ سے پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی سرگرمیاں معطل ہیں۔

ترجمان پاک چین تاجر اتحاد ایکشن کمیٹی نے مطالبات کے تسلیم ہونے تک دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

قومی اسمبلی (ایوان زیریں) کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور میں منگل کو نیشنل لاجسٹکس کارپوریشن (این ایل سی) حکام نے انکشاف کیا ہے کہ گلگت بلتستان میں واقع سوست بارڈر گذشتہ دو ماہ سے زائد عرصہ سے ’تجارتی اشیا پر ٹیکس کے نفاذ کے خلاف‘ جاری احتجاج کے باعث بند ہے۔

سوست بارڈر پر تاجروں کی جانب سے یہ احتجاجی دھرنا گذشتہ 64 روز سے جاری ہے۔

کمیٹی اجلاس کے دوران این ایل سی حکام نے بتایا کہ تاجروں کی ہڑتال کی وجہ سے بارڈر پر پر قسم کی تجارت بند ہے۔ ’نہ پاکستان سے چین کوئی بھی چیز بھیجی جا رہی ہے اور نہ چین سے پاکستان کوئی چیز آ رہی ہے۔ تجارت مکمل طور پر بند ہے۔‘

سوست بارڈر پر سراپا احتجاج مظاہرین سمجھتے ہیں کہ تجارتی سرگرمیاں معطل ہونے سے مقامی تاجر اور عوام شدید متاثر ہو رہے ہیں۔

اس ضمن میں ترجمان پاک چین تاجر اتحاد ایکشن کمیٹی عباس میر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ  ’جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے اس وقت تک یہ دھرنا جاری رہے گا۔ حکومت پاکستان خود متعدد بار تحریری طور پر اسے نان ٹیرف ایریا تسلیم کر چکی ہے۔ اسی بنیاد پر یہاں کسی قسم کے وفاقی ٹیکسز بشمول سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، ریگولیٹری ڈیوٹیز وغیرہ کا نفاذ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔‘

عباس میر کہتے ہیں 2023 میں 1200 کنٹینرز خنجراب کے راستے آئے جن میں سے 900 کلیئر ہوئے۔ تاہم 286 کنٹینرز بغیر کسی واضح قانون کے روک لیے گئے اور ان پر بھاری ٹیکسز عائد کر دیے گئے۔

’اس اقدام سے تاجروں کو مالی نقصان ہوا اور ہم ان زیادتیوں کے خلاف 64 روز سے پرامن احتجاج پر بیٹھے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ترجمان پاک چین تاجر اتحاد ایکشن کمیٹی نے ’گلگت بلتستان پر تمام غیر آئینی ٹیکسز ختم کیے جانے، پھنسے ہوئے کنٹینرز کو فوری کلیئر کرنے‘ کا مطالبہ کیا۔

پاکستانی آئین کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام علاقوں جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے شہریوں پر سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔

فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کے ایک عہدیدار نے اس معاملہ پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ادارہ تاجروں سے انکم یا سیلز ٹیکس کا مطالبہ نہیں کر رہا بلکہ کسٹم ڈیوٹی ادا کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ ’پاکستان کا کوئی بھی شہری کسٹم ڈیوٹی ادا کرنے سے مستثنی نہیں ہے اور قانون کے مطابق تمام افراد کو ریگولیٹری ڈیوٹی ادا کرنا ہو گی۔ ریگولیٹری ڈیوٹی ان اشیا پر عائد کی جاتی ہے جو پاکستان کے زیر انتظام علاقوں میں زیر استمعال نہ آنی ہوں۔‘

اس حوالے سے وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے ایک کمیٹی بھی قائم کی تھی، جس میں معاملے کو حل کرنے کے لیے تجاویز جمع کروائی جانا تھیں۔

اس کمیٹی میں وزیر اعلی گلگت بلتستان، متعلقہ صوبائی انتظامیہ اور کسٹم حکام شامل ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت