لاطینی امریکہ کے ملک ایکواڈور میں فٹ بال ایک مہلک کھیل ہے، جہاں کھلاڑی میچ فکسنگ مافیا کے سائے میں مقابلہ کرتے ہیں اور قاتلوں کی گولی کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں۔
31 سالہ مڈفیلڈر جوناتھن گونزالز اس ماہ کولمبیا کی سرحد کے قریب اپنے گھر میں آرام کر رہے تھے کہ ایک ہٹ مین موٹر سائیکل پر آیا اور ان کے سر میں گولی مار دی۔
ساتھیوں میں ’سپیڈی‘ کے نام سے مشہور کلوب 22 ڈی جولیو ٹیم کے لیے کھیلتے اور پچھلے مہینے میں ایکواڈور کے ان تین پروفیشنل کھلاڑیوں میں سے ایک تھے، جو مارے گئے۔
ان کے بارے میں کلب کے ملازم اوسوالڈو بیٹالاس نے اے ایف پی کو بتایا: ’وہ ایک اچھا نوجوان تھا، جو شرط لگانے کی وجہ سے مارا گیا۔‘
گونزالز کی موت نے کلب اور ایکواڈور کو حیران کر دیا، لیکن یہ اتنا حیران کن نہیں تھا۔
چند دن پہلے، دوسری ڈویژن کے پروفیشنلز مائیکول والینسیا اور لیانڈرو یپیز کو ساحل پر ایک ہوٹل میں گولی مار دی گئی۔
والینسیا موقعے پر ہی چل بست جبکہ یپیز ہسپتال پہنچ گئے، لیکن وہ بھی بچ نہیں سکے۔ دونوں ایکسپروما کوسٹا کے لیے کھیلتے تھے۔
اپنی موت سے چند دن پہلے، گونزالز کو متوقع خطرات کی معلومات ملی تھیں۔ ان کی گاڑی پر گولیاں چلائی گئیں اور ان کی ماں کو دھمکیاں ملیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پھر ایک مافیا نے جو آن لائن بیٹنگ سے وابستہ تھی، ان پر دباؤ ڈالا کہ وہ ایک میچ ہار جائے، جو 1–1 کی برابری پر ختم ہوا۔
پولیس اب بھی ان تینوں کھلاڑیوں کی موت کی تحقیقات کر رہی ہے۔
ڈالرائزڈ، خوبصورت اور مہمان نواز ملک ایکواڈور طویل عرصے سے مافیا کے لیے ایک مقبول پناہ گاہ رہا ہے۔
لیکن جب سے یہ ملک کولمبیا کے کوکین کے لیے ایک اہم ٹرانزٹ ہب بنا ہے، اس نے نارکو اور دیگر گینگز کو بڑی تعداد میں اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔
میکسیکو کے سینالوا کارٹیل، اٹلی کے ’انڈراگیتا‘، البانیا کی مافیا اور دیگر گروہوں کے ساتھ مقامی گروپوں کے درمیان مقابلے نے لاطینی امریکہ کے سب سے محفوظ ملک کو سب سے مہلک بنا دیا ہے۔
ہارنے والی شرط
قتل، بھتہ خوری اور سمگلنگ میں اضافہ ہوا ہے اور کوئی بھی صنعت بشمول فٹ بال متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی۔
اقوام متحدہ کے ایک حالیہ تخمینے کے مطابق دنیا بھر میں غیر قانونی کھیلوں کی بیٹنگ کا تخمینہ ہے کہ گینگز کو ہر سال تقریباً 1.7 ٹریلین ڈالر کی آمدن ہوتی ہے۔
انڈیا میں ایک پورا کرکٹ ٹورنامنٹ جعلی ٹیموں کے ساتھ بنایا گیا تاکہ روسی پنٹرز سے پیسہ نکالا جا سکے۔
ایکواڈور میں، جیسا کہ بہت سے ممالک میں، کھیلوں کی بیٹنگ (چاہے قانونی ہو یا غیر قانونی) کے درمیان تعلق مضبوط ہے۔
تقریباً ایک درجن پروفیشنل ٹیمیں آن لائن بیٹنگ کمپنیوں کی حمایت حاصل کرتی ہیں۔
دیگر تعلقات کسی سپانسر کے لوگو سے کم واضح ہیں۔
2023 میں امریکی سفیر مائیکل فٹز پیٹرک نے خبردار کیا کہ منشیات کے کارٹیل فٹ بال کلبوں کا استعمال دھوکہ دینے کے لیے کر رہے ہیں۔
کارلوس ٹینوریو نے، جنہوں نے ایکواڈور کے لیے 50 کیپس حاصل کیے اور 2006 کے ورلڈ کپ میں شرکت کی، اے ایف پی کو بتایا کہ بیٹنگ اور فٹ بال کے درمیان تعلق کو توڑنے کا وقت آگیا ہے۔
انہوں نے بتایا: ’ہم فٹ بال کلب کے بنیادی سپانسر کے طور پر بیٹنگ کمپنیوں کو قبول نہیں کر سکتے۔‘
کیوٹو میں مقیم سکیورٹی ماہر فرنانڈو کریون نے کہا کہ فٹ بال کی بڑی کشش اسے نارکو کے اثر و رسوخ کا ایک اہم ہدف بناتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ غیر قانونی بیٹنگ ’دھوکہ دینے کے لیے ایک دلکش طریقہ ہے کیونکہ نگرانی کمزور ہے۔‘
ایک لیگ کی رپورٹ نے اس سال کم از کم پانچ دوسری ڈویژن کے میچوں میں میچ فکسنگ کے شواہد پائے ہیں۔
چاکاریتاس نامی ایک کلب کو ایک میچ ہارنے کے لیے 20,000 ڈالر کی پیشکش کی گئی۔
2024 کی ایک خوفناک ویڈیو میں کھلاڑیوں کو گولی کے زور پر میچ ہارنے کے لیے دھمکیاں دیتے ہوئے دکھایا گیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دوسری ڈویژن کی ٹیمیں کم تنخواہوں کی وجہ سے کمزور ہیں۔ جب کھلاڑی تعاون کرتے ہیں تو مافیا کے کنٹرول سے نکلنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔
محفوظ کھیل
مافیا کی دھمکیوں کی وجہ سے، کلب 22 ڈی جولیو کے صدر سمرالڈاس سے فرار ہو کر اب روپوشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
چلی کے سابق فٹ بال کھلاڑی نیلسن ٹاپیا بھی ان میں شامل ہیں، جنہوں نے کھیلنا چھوڑ دیا۔
انہوں نے ملک سے باہر رہتے ہوئے کہا: ’میں نے کبھی دھوکہ نہیں دیا یا میچ فکس نہیں کیے۔‘
ٹاپیا نے الزام لگایا کہ ایکسپروما کوسٹا ادولفو ’فیتو‘ میکیا سے وابستہ ہے، جو نارکو گینگ لاس چونروس کے رہنما ہیں، جنہیں حال ہی میں امریکہ کے حوالے کیا گیا۔
ایکواڈور کے اب تک کے سب سے زیادہ سکورر اینر والینسیا نے بھی اپنے پسندیدہ کلب ایملیک میں واپس آنے کے بارے میں خوف کا اظہار کیا ہے۔
’میں ایملیک میں واپس جانا چاہوں گا، لیکن میں اپنے خاندان کو ایکواڈور نہیں لے جاؤں گا اور نہ ہی میں ابھی وہاں جاؤں گا۔‘
2022 میں ان کی بہن، ایلسا والینسیا، ایک ہفتے کے لیے اغوا ہونے کے بعد بازیاب کروائی گئی تھیں۔