وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پولیس کے مطابق منگل کی شب فائرنگ کے دو الگ الگ واقعات میں ایک سرکاری ملازم سمیت دو افراد قتل جبکہ ایک شخص شدید زخمی ہو گیا۔
اسلام آباد پولیس کے اعدادوشمار کے مطابق رواں برس اب تک شہر میں 40 سے زائد قتل کے واقعات ہو چکے ہیں، جن میں معروف ٹک ٹاکر ثنا یوسف، اسلامک یونیورسٹی کی طالبہ اور حساس ادارے کے ایک افسر کا قتل بھی شامل ہے، جن میں ملوث ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
پولیس کے مطابق منگل کی شب اسلام آباد میں گولڑہ کے علاقے میں ایک شخص کا اے ٹی ایم کے قریب قتل ہوا، جسے ابتدائی طور پر ڈکیٹی کی واردات سمجھا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) انویسٹی گیشن اسلام آباد جواد طارق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’قتل ہونے والا شخص چند ماہ قبل ہی جیل سے رہا ہوا ہے اور اس پر بھی قتل کا مقدمہ درج ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’مقتول کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے اور ابتدائی تفتیش اور سی سی ٹی وی فوٹیج سے یہ ذاتی دشمنی کا شاخسانہ لگ رہا ہے کیونکہ ملزمان نے موٹر سائیکل پر پیچھا کیا اور قریب پہنچ کر فائرنگ کر دی۔‘
قتل کا دوسرا واقعہ اسلام آباد کے علاقے بلیو ایریا میں مشہور بیکری لوفولوجی کے سامنے ہوا، جس کے حوالے سے سوشل میڈیا پر رپورٹ ہوا کہ اس واقعے میں دو افراد جان سے گئے۔
تاہم ڈی آئی جی جواد طارق نے بتایا کہ ’بلیو ایریا میں رات گئے دو نہیں ایک قتل ہوا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’موٹر سائیکل سواروں کی جانب سے دو افراد پر فائرنگ کی گئی تھی۔ ایک شخص جن کا نام احسان الٰہی ہے اور وہ وزارت ہاؤسنگ کے ملازم ہیں، موقعے پر چل بسے جبکہ قیصر نامی دوسرے شخص، جو ایف بی آر کے ملازم ہیں، شدید زخمی ہوئے، جنہیں بروقت ہسپتال منتقل کر کے بچا لیا گیا۔‘
ڈی آئی جی نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا کہ ’حملہ آور انتہائی تیزی سے فائرنگ کے بعد فرار ہو گئے۔‘
جواد طارق کے مطابق واقعات کی تحقیقات کے لیے ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں، تاہم اہل خانہ نے اب تک ایف آئی آر کا اندراج نہیں کروایا۔
اسلام آباد میں امن وامان کی صورت حال کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ڈی آئی جی جواد طارق نے بتایا کہ ’اسلام آباد میں سیف سٹی کیمروں کا نظام مکمل فعال ہے۔ اس سے قبل بھی اسلام آباد میں جتنی وارداتیں ہوئی ہیں، ان تمام کیسز کو حل کیا گیا ہے اس کو بھی جلد حل کر لیں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ذاتی دشمنی یا ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کا سدباب ممکن نہیں ہے لیکن پولیس کا بروقت رسپانس اس جرم کے پھیلاؤ کو روکتا ہے۔‘