اسرائیل کی حراست سے رہا ہونے والے پاکستان کے سابق سینیٹر اور جماعت اسلامی کے رہنما مشتاق احمد خان نے جمعرات کو پاکستان پہنچنے پر کہا ہے کہ وہ ’زیادہ قوت کے ساتھ دوبارہ غزہ جا رہے ہیں۔‘
مشتاق احمد اگست کے آخر میں غزہ کے لیے سپین سے امداد لے کر روانہ ہونے والی تقریباً 45 کشتیوں پر مشتمل صمود فلوٹیلا میں شامل تھے۔
اسرائیلی فورسز نے یکم اکتوبر کو غزہ کے پانیوں کے قریب فلوٹیلا کو روک کر ان پر سوار رضا کاروں کو حراست میں لے لیا تھا، جن میں مشتاق احمد بھی شامل تھے۔
حکومت پاکستان نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات نہ ہونے کی وجہ سے ایک اور ملک سے ان کی رہائی میں مدد مانگی تھی۔ بعد ازاں پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے سات اکتوبر کو ایکس پر اعلان کیا تھا کہ سابق سینیٹر مشتاق صاحب کو رہا کر دیا گیا ہے اور وہ اردن کے دارالحکومت عمان میں پاکستان کے سفارت خانے کے پاس ہیں۔
سابق سینیٹر جمعرات کو اردن سے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد پہنچے تو انڈپینڈںنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں کہا ’ہم نے اسرائیل کے ظلم سے طاقت حاصل کی اور یہ ظلم انہوں نے اس لیے کیا کہ وہ کمزور ہیں۔
’وہ ظلم سے اپنے راج کو قائم کرنا چاہتا ہیں لیکن وہ ناکام ہوئے اور ہم نے اپنے صبر، استقامت اور اللہ کی مدد سے ان کے ظلم کے باوجود سرخرو ہو کر لوٹے۔‘
مشتاق احمد نے کہا کہ ’اسرائیلی سمندری قزاقوں نے ہمیں اور ہماری کشتیوں کو اغوا کیا حالانکہ ہم بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کر رہے تھے۔
’ہمیں اغوا کر کے حراستی کیمپ میں رکھا گیا، جہاں 10 ہزار فلسطینی، جن میں 10 سال سے کم عمر سینکڑوں بچے بھی موجود تھے۔
انہوں نے بتایا کہ حراستی کیمپوں میں ’بدترین تشدد کیا جاتا ہے، کتے چھوڑے جاتے ہیں، ہتھکڑیاں لگا کر ہاتھ پیچھے باندھے اور بیڑیاں لگائی جاتی ہیں۔
’کھلی ہوا اور دھوپ تک رسائی نہیں دی جاتی، پینے کا پانی فراہم نہیں کیا جاتا۔ دوائیاں تک نہیں دی جاتیں۔ آنکھوں پہ پٹیاں باندھ دی جاتی ہیں۔ ہم پر بھی یہ ظلم کیا گیا۔‘
مشتاق احمد خان کے ہوائی اڈے سے باہر آنے پر عوام کی بڑی تعداد نے ان کا استقبال کیا اور فلسطین کی آزدی کے لیے نعرے بازی کی۔
ان کا استقبال پھولوں کی پتیاں نچھاور کر کے کیا گیا اور عوام ان سے ہاتھ ملانے کے لیے لپکتے رہے۔
سکیورٹی کے حصار کے باوجود کئی لوگ ان تک پہنچنے میں کامیاب بھی ہوئے جبکہ کئی ان کی گاڑی پر بھی چڑھ گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رش کے باعث انہوں نے ہوائی اڈے کے احاطے میں میڈیا سے گفتگو نہیں کی۔
سابق سینیٹر نے کہا ’مجھے ڈی پورٹیشن پیپر دیے گئے اور ان پر دستخط کرنے پر اصرار کیا گیا مگر میں نے دستخط نہیں کیے۔
’مجھے کہا گیا کہ آپ اقرار کریں کہ آپ نے اسرائیلی قانون کی خلاف ورزی کی ہے مگر میں نے کہا کہ میں اسرائیل کو نہیں مانتا۔‘
’غزہ کے لیے محبت نے اس ہزاروں میل طویل سمندری سفر کے لیے ہمت دی۔ ہم نے جو بھی کیا غزہ کے شہریوں اور شہدا کے لیے کیا۔
’غزہ کے بھوکے، پیاسے اور زخمیوں کو ہمیں نہیں بھولنا چاہیے۔ ہماری جدوجہد کا مرکز غزہ ہے۔ جنہوں نے غزہ پر مظالم ڈھائے ہیں وہ انسانیت کے دشمن ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’غزہ کے لیے محبت نے اس ہزاروں میل طویل سمندری سفر کے لیے ہمت دی، ایک ایسا سفر جو میں نے زندگی میں پہلے کبھی نہیں کیا۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا دوبارہ غزہ جانے کی کوشش کریں گے، ان کا کہنا تھا کہ ’اگر نہیں، میں دوبارہ غزہ جا رہا ہوں، زیادہ قوت کے ساتھ جا رہا ہوں، ظلم کی اس دیوار سے بار بار ٹکرائیں گے، جب تک اسے منہدم نہ کر لیں۔‘