انٹرنیٹ ہوتے ہوئے ہمیں کسی استاد کی ضرورت نہیں رہی: پاکستانی ماہر

ایک پاکستانی ادارے ’ڈیٹا دربار‘ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کی نویں بڑی ایپ مارکیٹ بن گیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اپنانے کی رفتار بہت تیز ہے۔

ایک پاکستانی ادارے ’ڈیٹا دربار‘ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کی نویں بڑی ایپ مارکیٹ بن گیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اپنانے کی رفتار بہت تیز ہے اور ماہرین کہتے ہیں کہ ’انٹرنیٹ کے ہوتے ہوئے اب کسی استاد کی ضرورت نہیں رہی۔‘

ڈیٹا دربار کی جانب سے جاری کی گئی ’پاکستان سٹیٹ آف ایپس 2024‘ رپورٹ میں بتایا گیا کہ گذشتہ برس ملک میں تقریبا ساڑھے تین ارب ایپس ڈاؤن لوڈ کی گئیں اور انہیں 79 ارب گھنٹے استعمال کیا گیا۔

پاکستان میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے فروغ کے مواقعوں پر بات کرنے  کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی ’جاز‘ کے صدر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز عامر اعجاز سے گفتگو کی، جن کا کہنا تھا کہ جب ایپس زیادہ ڈاؤن لوڈ ہو رہی ہیں تو ایک بڑا اشارہ ہے کہ ہماری ڈیجیٹل شمولیت بڑھ رہی ہے۔

بقول عامر: ’جب بھی کسی معاشرے میں ڈیجیٹل شمولیت بڑھتی ہے، تو اس پر ایک بہت بڑی معروف تحقیق ہے کہ اگر 10 فیصد براڈ بینڈ میں اضافہ ہو تو معیشت کی جی ڈی پی گروتھ 1.3 فیصد بڑھتی ہے۔ اس کا براہ راست لنک ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سکول جو ہمیں سکلز سکھا رہے ہیں اور جو سکلز تبدیل ہو چکی ہیں، اس خلا کو انٹرنیٹ ہی بھر سکتا ہے۔ میں اپنے بچوں سے خود کہتا ہوں کہ انٹرنیٹ ہوتے ہوئے آپ کو کسی اور استاد کی ضرورت نہیں ہے، تو بہت ساری سکل ڈیویلپمنٹس لوگ اس (انٹرنیٹ) کے اوپر کر رہے ہیں۔‘

عامر اعجاز کو ٹیلی کمیونیکیشن انڈسٹری میں تقریباً 27 سال ہو چکے ہیں۔ انہوں نے انجینیئرنگ یونیورسٹی، لاہور سے الیکٹریکل انجینیئرنگ کی اور گولڈ میڈل حاصل کیا، جس کے بعد انہوں نے فرانسیسی کمپنی ایلکاٹل میں ملازمت شروع کی۔ وہاں سے عامر نے یوفون لانچ کیا۔ پھر وہ بنگلہ دیش چلے گئے جہاں انہوں نے ساڑھے پانچ سال ٹیلی کام انڈسٹری میں کام کیا اور واپسی پر انہوں نے موبی لنک جاز میں شمولیت اختیار کر لی۔

قومی معیشت میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے کردار کے بارے میں عامر کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اس وقت پانچویں بڑی فری لانس مارکیٹ بن چکا ہے۔ پاکستان سے لوگ سوفٹ ویئرز بنا رہے ہیں۔ پاکستان سے آدھے ارب ڈالر سے زیادہ کی برآمدات ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں لوگ مواد بنا رہے ہیں۔

’ہم 30،20 سال پہلے نوجوانوں سے بات کرتے تھے تو اکثر سرکاری نوکری یا اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر بننے کی بات کرتے تھے۔ پھر رجحان تبدیل ہوگیا۔ ایک وقت تھا جب نوجوان سرکاری نوکری یا ڈاکٹر، انجینیئر بننے کا خواب دیکھتے تھے، اب وہ سٹارٹ اپس اور انٹرپرینیورشپ کی طرف جا رہے ہیں۔ یہ سب ایپس اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اپنانے کا نتیجہ ہے۔‘

جنوبی ایشیا میں ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں پاکستان کی کارکردگی نمایاں ہے۔ ملک کی 9.2 فیصد ڈاؤن لوڈ کی نمو انڈونیشیا (8.6 فیصد)، فلپائن (1.2 فیصد)، میکسیکو (1.2 فیصد)، مصر (-1.7 فیصد) اور ویتنام (-13.6 فیصد) سے تجاوز کر گئی ہے۔

ایپس کے استعمال میں اضافے کے لیے، پاکستان نے 14.1 فیصد کے ساتھ خطے کی قیادت کی اور فلپائن (8.4 فیصد)، میکسیکو (4 فیصد)، انڈونیشیا (3.4 فیصد) اور ویتنام (2.6 فیصد) کو پیچھے چھوڑ دیا۔

مقامی ایپس کا کردار

’ڈیٹا دربار‘ کی رپورٹ کے مطابق ملک میں لائف سٹائل اور انٹرٹینمنٹ ایپس سب سے زیادہ مقبول ہوئیں، ایسے میں انٹرنیشنل ایپس جیسے نیٹ فلکس کے مقابلے میں پاکستانی ایپس کہاں کھڑی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں عامر کا کہنا تھا کہ ’نیٹ فلکس پاکستان میں کافی عرصے سے ہے مگر اس کے صارفین محدود ہیں کیونکہ اس کی قیمت زیادہ ہے اور مواد زیادہ تر انگریزی ناظرین کے لیے ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس کے برعکس تماشا جیسے مقامی پلیٹ فارمز عام صارف کی ضرورت کے مطابق مواد فراہم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایشیا کپ کے فائنل کے دوران تین کروڑ بیس لاکھ صارفین نے تماشا ایپ استعمال کی۔ یہ کسی بھی پاکستانی ایپ کے لیے ایک ریکارڈ ہے۔‘

انہوں نے بتایا: ’انٹرنیشنل ایپس کے ساتھ مقابلہ سخت ضرور ہے، مگر مقامی کانٹینٹ اور مناسب قیمت کی وجہ سے پاکستانی ایپس تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔‘

موبائل براڈ بینڈ کے استعمال میں اضافے کی وجہ حکومتی پالیسی ہے یا مارکیٹ کی ضرورت؟ اس سوال پر عامر اعجاز نے بتایا کہ اس میں دونوں کا کردار ہے۔ ’نجی شعبے نے سرمایہ کاری بھی کی اور عوام کو آگاہ بھی کیا۔ حکومت نے بھی پالیسیوں کے ذریعے سہولت دی ہے۔‘

تاہم ان کا اصرار تھا کہ چیلنجز موجود ہیں۔ ’مثلاً سپیکٹرم کم ہے اور اس کی قیمت ڈالرز میں ادا کرنی پڑتی ہے جبکہ آمدن روپے میں ہے۔ اس فرق کی وجہ سے مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ اسی لیے کچھ کمپنیاں جیسے ٹیلی نار مارکیٹ سے نکل رہی ہیں۔ ٹیکس ریٹ بھی زیادہ ہیں، اس لیے پالیسی میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔ اگر موبائل کنیکٹیویٹی کمزور رہی تو لوگ نئی معیشت سے کٹ جائیں گے۔‘

مستقبل کے امکانات

مستقبل میں پاکستان میں ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کے کون سے شعبے میں زیادہ امکانات ہیں؟ اس حوالے سے عامر کا کہنا تھا کہ ’مواقع ہر جگہ ہیں، مثلاً زراعت، صحت، آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور ٹوکنائزیشن۔ اگر ہم ان شعبوں پر توجہ دیں تو معیشت کو دو سے تین گنا تک بڑھایا جا سکتا ہے۔‘

اس سوال پر کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس ٹیلی کمیونیکیشن انڈسٹری کو کیسے بدل رہی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ’ابھی نیٹ ورک مینٹی نینس زیادہ تر ری ایکٹیو ہے یعنی خرابی کے بعد درست کی جاتی ہے۔ اے آئی سے ہم یہ پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ خرابی کہاں آنے والی ہے اور اسے پہلے ہی درست کر سکتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ اسی طرح صارف کے استعمال کے لحاظ سے ذاتی نوعیت کے پرائس پلان بنائے جا سکتے ہیں۔

عامر کے مطابق پاکستان میں وہ اوپن سورس لارج لینگویج ماڈلز لے کر اپنے ڈیٹا پر اسے خود تربیت دے رہے ہیں۔ ’ہمارا ایک انٹیلی جنس اسسٹنٹ ہے جسے سیا (Simosa Intelligent Assistant) کہا جاتا ہے۔ اب لاکھوں لوگ ہر ماہ اس کے ذریعے بات چیت کر کے اپنے مسائل حل کرتے ہیں۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ یہ ماڈل پاکستانی ڈیٹا پر تربیت یافتہ ہوں تاکہ انٹرنیشنل جانبداری کم ہو اور مقامی ضروریات پوری ہوں۔‘

انہوں نے نوجوان نسل کو مشورہ دیا کہ صرف تفریح کے بجائے سیکھنے کے لیے ٹیکنالوجی کو استعمال کریں تو آپ دنیا کی کوئی بھی مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔ ’فری لانسنگ، کوڈنگ، کانٹینٹ رائٹنگ، گرافک ڈیزائننگ، سب کے مواقع موجود ہیں۔ پاکستان پہلے ہی دنیا کی پانچویں بڑی فری لانس مارکیٹ ہے، ہمیں پہلی پوزیشن حاصل کرنی چاہیے۔‘

ڈیٹا دربار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی ڈویلپر برادری کو 2024 میں نمایاں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ فعال ڈویلپرز 26 فیصد کم ہو کر صرف 1400 افراد پر آگئے جبکہ اینڈروئیڈ ایپ ریلیز 55 فیصد سے کم ہوکر 1700 ہوگئیں۔ گیم ڈویلپمنٹ میں 31 فیصد کمی واقع ہوئی اور صرف 756 جاری ہوئیں۔ آئی او ایس ڈویلپمنٹ 784 ایپس پر واحد مستحکم طبقہ رہا۔ مجموعی طور پر پاکستانی ڈویلپرز نے 2024 میں 2500 ایپس اور گیمز جاری کیں۔

مستقبل میں موبائل فون کے استعمال کی لاگت سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ پیسے کے مقابلے میں مالیت (ویلیو) بڑھے گی۔ ’اگر حکومت اور نجی شعبہ مل کر سپیکٹرم، ٹیکس اور پالیسی کے مسائل حل کریں تو صارف کو بہتر سروس ملے گی۔ ٹیلی کام وہ بنیاد ہے جس پر باقی تمام نئی انڈسٹریاں کھڑی ہوں گی، اس لیے اس کی مضبوطی سب کے لیے ضروری ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی