نیپرا ٹیرف کے-الیکٹرک کو دیوالیہ کر سکتا ہے: سابق ایف بی آر سربراہ

نیپرا کی جانب سے کے-الیکٹرک کے لیے نئے ملٹی ایئر ٹیرف نے توانائی اور مالیاتی ماہرین کے درمیان شدید بحث چھیڑ دی ہے۔

کراچی میں بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کے الیکٹرک کا ٹیکنیشن 13 مئی، 2010 کو رہائشی عمارت میں بجلی کے میٹر نصب کر رہا ہے (اے ایف پی)

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی جانب سے کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کے-الیکٹرک کے لیے نئے ملٹی ایئر ٹیرف نے توانائی اور مالیاتی ماہرین کے درمیان شدید بحث چھیڑ دی ہے۔

20 اکتوبر کو نیپرا نے کے-الیکٹرک کے ملٹی ایئر ٹیرف کی درخواستوں پر فیصلہ جاری کرتے ہوئے کمپنی کا اوسط ٹیرف 39.97 فی یونٹ سے کم کرکے 32.37 روپے کر دیا تھا۔

نیپرا نے یہ فیصلہ کے-الیکٹرک کے ملٹی ایئر ٹیرف سے متعلق مالی سال 2024 سے 2030 کی کنٹرول مدت کے دوران مختلف فریقین کی دائر نظر ثانی کی درخواستوں پر سنایا۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے سابق چیئرمین شبر زیدی نے اس فیصلے کو مالی طور پر ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر صورتحال میں بہتری نہ آئی تو کے-الیکٹرک اگلے دو برسوں میں دیوالیہ ہو سکتی ہے۔

شبر زیدی نے اس تشویش کا اظہار پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف مارکیٹ اکانومی (پرائم) کے زیر اہتمام منعقدہ ویبینار میں کیا، جس کا موضوع تھا ’کراچی کی توانائی سلامتی: چیلنجز اور مواقع۔‘

انہوں نے کہا ’نیپرا کا ترمیم شدہ ٹیرف ناصرف کے-الیکٹرک کے مالی استحکام بلکہ حکومت کے نجکاری ایجنڈے کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔ 

ان کے مطابق اس فیصلے سے کراچی کے معاشی توازن اور صنعتی ترقی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

شبر زیدی نے کہا کے-الیکٹرک کی پیداواری لاگت دیگر ڈسکوز کے مقابلے میں کم ہے لیکن موجودہ مالیاتی ڈھانچے کے تحت کمپنی کی پوزیشن خطرے میں ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو کے-الیکٹرک کا موجودہ چار ارب روپے کا منافع 81 ارب روپے کے نقصان میں بدل سکتا ہے۔ 

تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ ایسے مالیاتی نظام میں کسی بھی ڈسکو کی آئندہ 50 سال میں نجکاری ممکن نہیں ہو سکے گی کیونکہ پالیسی اور ریگولیٹری فیصلے نجی شعبے کی شمولیت کے لیے حوصلہ شکن ثابت ہو رہے ہیں۔

شبر زیدی کے مطابق کراچی کا موازنہ دیگر شہروں سے کرنا درست نہیں کیونکہ یہاں کے صنعتی، سماجی اور تکنیکی تقاضے مختلف ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ اگر نیپرا نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی نہ کی تو اس کے اثرات شہر کی توانائی سلامتی اور سرمایہ کاری کے ماحول پر پڑیں گے۔

ویبینار میں توانائی ماہرین کے علاوہ کے-الیکٹرک کے سی ای او مونس عبداللہ علوی نے بھی شرکت کی، جنہوں نے کہا ’ٹیرف کے تعین میں کمپنی کی کارکردگی میں مسلسل بہتری اور کراچی کے منفرد آپریشنل چیلنجز کو مدنظر رکھا جانا چاہیے تھا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’نجکاری کے بعد کے-الیکٹرک نے اپنے تکنیکی و تجارتی نقصانات کو 45 فیصد سے کم کر کے 20 فیصد سے نیچے لانے میں کامیابی حاصل کی ہے، تاہم نئے ٹیرف ڈھانچے نے کمپنی کے لیے مالی مشکلات پیدا کی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا ’فیول ریفرنس میکنزم میں تبدیلیوں سے کراچی کے صارفین پر اضافی مالی بوجھ پڑ سکتا ہے، مگر ہم حکومت اور نیپرا کے ساتھ تعمیری بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کے حل کے لیے پر عزم ہیں۔

’قومی گرڈ اور دیگر تقسیم کار کمپنیوں کے مقابلے میں کے-الیکٹرک کی لاگت کم اور کارکردگی بہتر ہے اور کمپنی کراچی کے عوام کو بلاتعطل بجلی فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش جاری رکھے گی۔‘

پاور ڈویژن نے نیپرا کے فیصلے کو کراچی کے صارفین کے مفاد میں ایک اہم اقدام قرار دیا ہے۔ 

ترجمان پاور ڈویژن نے کہا بعض حلقے اس فیصلے کو گمراہ کن انداز میں پیش کر رہے ہیں حالانکہ یہ ریگولیٹری اصلاحات کا حصہ ہے نہ کہ صارفین پر بوجھ ڈالنے کی کوشش۔

ترجمان کے مطابق کے-الیکٹرک کو اپنی کارکردگی کو سرکاری اداروں کے برابر لانا ہوگا اور نیپرا کا یہ فیصلہ انتظامی اصلاحات کے تحت کیا گیا ہے۔ 

اس فیصلے کے تحت کے-الیکٹرک نیشنل گرڈ سے تقریباً دو ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کر رہی ہے، جو اس کے اپنے پلانٹس سے سستی ہے اور صارفین کے لیے فی یونٹ نرخ قومی سطح پر یکساں ہیں۔

پاور ڈویژن نے واضح کیا کہ نیپرا کے فیصلے سے سبسڈی میں کمی نہیں آئی اور کراچی کے صارفین کو سبسڈی بدستور فراہم کی جائے گی۔ 

پاور ڈویژن نے اس فیصلے کو ریگولیٹری نظام کی مضبوطی کی سمت ایک اہم قدم قرار دیا، جو ٹیکس دہندگان پر بوجھ میں کمی کا باعث بنے گا اور کے-الیکٹرک اور سرکاری ڈسکوز کے درمیان توازن پیدا کرے گا۔ 

ترجمان نے یہ بھی کہا کہ کراچی میں لوڈشیڈنگ کا کوئی خطرہ نہیں کیونکہ نیشنل گرڈ میں وافر اور سستی بجلی دستیاب ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت