پیپلز پارٹی کے خیبرپختونخوا میں رہنما عدنان جلیل کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاست گندی نہیں ہوتی، دراصل اس میں گند اس وقت آتا ہے جب اچھے لوگ سیاست سے کنارہ کش ہو جائیں۔
نوجوانوں کے سیاست پر کردار پر انڈپینڈنٹ اردو سے اسلام آباد میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اچھے لوگوں کی ضرورت ہے۔ ’لہٰذا میری درخواست ہے —سیاست میں آئیں، دیانت داری سے کام کریں، اور ایک نئی سوچ کے ساتھ اپنے ملک کو آگے بڑھائیں۔‘
عدنان جلیل، جو کہ اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے خیبر پختونخوا کے اکنامک کوآرڈینیٹر ہیں، صوبے کی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ وہ عوامی نیشنل پارٹی کے سابق رہنما اور صوبائی وزیر خزانہ مرحوم حاجی محمد جلیل کے برخوردار ہیں۔ وہ پہلے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) میں تھے، اب پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں۔
ان سے پوچھا کہ خیبر پختونخوا کے نوجوانوں کا سیاست میں رجحان کیسا ہے؟ کیا وہ سیاست کی طرف آ رہے ہیں یا دور جا رہے ہیں تو عدنان جلیل کا کہنا تھا کہ دراصل سیاست ایک پیچیدہ عمل ہے، اور بدقسمتی سے پڑھی لکھی نوجوان نسل کا سیاست میں دلچسپی کا رجحان بہت کم ہو رہا ہے۔ ’ہمارے ہاں عام تاثر یہ ہے کہ سیاست گندی چیز ہے، یا یہاں صرف پیسے والے لوگ کامیاب ہو سکتے ہیں۔ یہ تاثر بہت نقصان دہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پچھلے ایک سال میں تقریباً نو لاکھ نوجوان پاکستان چھوڑ کر بیرونِ ملک جا چکے ہیں اور اگر یہ رجحان اسی رفتار سے جاری رہا، تو ہم ایک قیمتی انسانی سرمایہ کھو دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کا سیاسی نظام ابھی تک پختگی حاصل نہیں کر سکا۔ ’دنیا میں جہاں جمہوریت مضبوط ہے، وہاں جماعتیں اپنے طویل المدتی ویژن کے مطابق کام کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں سیاست زیادہ تر وقتی بنیادوں پر، یعنی اِڈہاک بنیاد پر چلتی ہے۔‘
تو آپ سمجھتے ہیں کہ موجودہ بڑی سیاسی جماعتیں — مثلاً پیپلز پارٹی — نوجوانوں کو اتنی اہمیت نہیں دے رہیں؟ عدنان کا کہنا تھا کہ کچھ حد تک ایسا ہی ہے۔ ’میں پیپلز پارٹی میں ہوں، اور میں نے یہاں آ کر ایک الگ کلچر دیکھا۔ یہاں اندرونی اجلاسوں میں ہر شخص کو بولنے، اختلاف کرنے اور مشورہ دینے کی آزادی ہے۔ یہ کلچر میں نے کسی دوسری پارٹی میں نہیں دیکھا۔ میری رائے میں، اس کلچر کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوانوں کو پالیسی سطح پر فیصلہ سازی میں شامل کیا جا سکے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک سوال کے جواب میں کہ خیبر پختونخوا میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت پہلے جیسی نہیں رہی۔ آپ اس وقت پارٹی کی حیثیت کو کیسے دیکھتے ہیں تو انہوں نے اس سے اتفاق کیا۔ ’بالکل — ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہیے۔ خیبر پختونخوا میں پیپلز پارٹی کی قیادت کو مشکلات کا سامنا ہے،
اگر ہم صحیح حکمتِ عملی اپنائیں تو پارٹی اپنا مقام دوبارہ حاصل کر سکتی ہے۔‘
اے این پی سے پیپلز پارٹی میں آنے کی وجہ جاننا چاہی تو انہوں نے یاد دلایا کہ اے این پی ان کی خاندانی جماعت تھی۔ ’میرے دادا، والد حاجی محمد جلیل — سب اسی نظریے سے وابستہ تھے۔ میں بھی ان نظریات کا احترام کرتا ہوں، لیکن وقت کے ساتھ کچھ نظریاتی اور تنظیمی اختلافات پیدا ہوئے۔ مجھے لگا کہ میری سوچ اور وژن پیپلز پارٹی کے ساتھ زیادہ میل کھاتا ہے۔‘
اٹھارویں ترمیم پر آج کل بہت بحث ہو رہی ہے — کچھ لوگ اسے بدلنے کی بات کر رہے ہیں۔
آپ کیا سمجھتے ہیں، کیا پیپلز پارٹی اس ترمیم میں کوئی تبدیلی چاہے گی؟ عدنان کا کہنا تھا کہ ان کی ذاتی رائے میں نہیں۔ ’اٹھارویں ترمیم پیپلز پارٹی کا تاریخی کارنامہ ہے، جس نے صوبوں کو خودمختاری دی۔ یہ پاکستان کی وفاقی سیاست کو مضبوط کرنے والا قدم تھا، اسے ختم کرنے یا کمزور کرنے کے بجائے مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔‘
آخر میں ان سے نوجوانوں کے لیے کوئی پیغام دینے کا کہنا تو ان کا کہنا تھا کہ سیاست سے دور نہ بھاگیں، کیونکہ یہی تبدیلی کا راستہ ہے۔ ’پاکستان ایک خوبصورت ملک ہے — اس میں بے پناہ امکانات ہیں۔ خیبر پختونخوا کے پہاڑ، وادیاں، سیاحت، اور قدرتی وسائل دنیا کے کسی خطے سے کم نہیں۔ نوجوان اگر ایمان داری، جذبے اور وژن کے ساتھ سیاست میں آئیں، تو یہ ملک بدل سکتا ہے۔