امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو اعلان کیا ہے کہ قزاقستان ابراہیمی معاہدوں میں شامل ہو جائے گا۔
ان معاہدوں کی وجہ سے اسرائیل اور مسلم اکثریتی ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر آئے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹروتھ سوشل اکاؤنٹ پر لکھا: ’ہم جلد اسے باضابطہ بنانے کے لیے دستخط کی تقریب کا اعلان کریں گے اور بہت سے مزید ممالک طاقت کے اس کلب میں شامل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
ٹرمپ کا یہ اعلان اس پیش رفت کے بعد سامنے آیا ہے، جب ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہوں نے اسرائیل کے وزیراعظم بن یامین نتن یاہو اور قزاقستان کے صدر قاسم جومارت توقایف سے فون پر بات کی۔
اس سے قبل قزاقستان نے جمعرات کو کہا تھا کہ وہ ابراہیمی معاہدے میں شامل ہونے کے لیے حتمی مرحلے کی بات چیت میں ہے۔
قزاقستان حکومت کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا: ’یہ معاملہ مذاکرات کے حتمی مرحلے میں ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا: ’ابراہیمی معاہدوں میں ہماری متوقع شمولیت قزاقستان کی خارجہ پالیسی کے رخ کا قدرتی اور منطقی تسلسل ہے جو مکالمے، باہمی احترام اور علاقائی استحکام پر مبنی ہے۔‘
قزاقستان کے اسرائیل کے ساتھ پہلے ہی مکمل سفارتی تعلقات اور اقتصادی روابط موجود ہیں۔ ابراہیمی معاہدے میں اس کی شمولیت محض علامتی ہو گی اور اسی تاثر پر امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے جمعرات کو اعتراض کیا۔
ان کا کہنا تھا: ’یہ صرف سفارتی تعلقات سے کہیں بڑھ کر ایک بہتر اور وسیع تر تعلق ہے۔
’یہ (تعلق) ان تمام دوسرے ممالک کے ساتھ ہے جو معاہدے کا حصہ ہیں۔ آپ اب ایک ایسی شراکت داری کو جنم دے رہے ہیں جو ہر طرح کے مسائل پر، جن پر وہ مل کر کام کر سکتے ہیں، خصوصی اور منفرد اقتصادی ترقی لاتی ہے۔‘
امریکہ کی جانب سے ایک ایسے خطے میں اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششوں کے طور پر، جہاں روس کا طویل عرصے سے غلبہ رہا ہے اور جسے چین تیزی سے اپنی طرف مائل کر رہا ہے، ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں جمعرات کو قزاقستان کے صدر قاسم جومارت توکایف کے ساتھ ساتھ کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے چار دیگر وسطی ایشیائی رہنماؤں سے ملاقات کی۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’یہاں نمائندگی کرنے والے کچھ ممالک ابراہیمی معاہدوں میں شامل ہونے جا رہے ہیں اور یہ اعلانات اگلے تھوڑے ہی عرصے میں کر دیے جائیں گے۔‘