بالی وڈ کی چکا چوند دنیا۔ جہاں کسی بھی شعبے میں قسمت آزمانا خواب سے کم نہیں، صرف ایک چانس کے لیے کئی خواب بکھر جاتے ہیں اور انتظار کی گھڑیاں طویل بھی ہوتی چلی جاتی ہیں لیکن ایسا معاملہ ہر ایک کے لیے نہیں، اگر کوئی ’سٹار کڈ‘ ہے تو انہیں والدین کی طرف سے ایک سیڑھی مل جاتی ہے جس پر چڑھ کر وہ پہنچ سے دور بھی پہنچ جاتے ہیں۔
پاکستان اور انڈیا کی فلم نگری میں بچوں کو اپنے ہی نقش قدم پرچلانا عام سی بات ہے۔ پاکستان میں تو اب فلمیں بنانے کا رواج قریب قریب ختم ہو چکا ہے لیکن ٹی وی ڈراموں میں سٹار کڈز کی بھرمار نظر آتی ہے۔
بالی وڈ میں سٹار کڈز کا رواج دہائیوں سے چلتا آ رہا ہے بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ بالی وڈ تو دہائیوں سے اسی خاندانی سلطنت کا گڑھ ہے۔ اس حوالے سے پرتھوی راج کپور، راج کپور، دھرمیندر، راج کمار، منوج کمار، سنیل دت، دیوآنند سمیت ایک لمبی فہرست ہے جن کی اولادوں نے جہاں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو فلم نگری ان کی پہلی منزل بن گئی۔ کچھ ایسا ہی نغمہ نگار، موسیقار، ہدایت کار اور یہاں تک فلم سازوں کا بھی قصہ ہے۔ سٹار کڈز کو خصوصی توجہ ملنا جیسے ان کا حق سمجھا جاتا ہے۔
سٹار کڈز ہونے کے فائدے
بڑے بینرز، بڑے ہدایت کار اور ہیوی ویٹ بجٹ پر مبنی فلمیں، سب کچھ پلک جھپکتے میں ان سٹار کڈز کے لیے موجود ہوتا ہے۔ اگر والدین، بچوں کے لیے سرمایہ کاری نہیں کرتے تو بڑے بینرز اس کام میں پیش پیش رہتے ہیں جنہیں یہ کشش نظر آتی ہے کہ سٹار کڈز کی فلم دیکھنے ان کے والدین کے پرستار تو ضرور سینیما گھروں کا رخ کریں گے۔
کوئی عام لڑکا یا لڑکی ہوتو اسے آڈیشن اور ایک چھوٹے سے موقع کی تلاش کے لیے پروڈیوسرز اور ہدایت کاروں کے دفاتر کے چکر لگاتے لگاتے جوتے گھسنے پڑ جاتے ہیں لیکن سٹار کڈز کو براہِ راست بڑے ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز کی کال آتی ہے، جیسا کہ سری دیوی کی بیٹی جھانوی کپور اور شاہد کپور کے بھائی اشان کے ساتھ ہوا جنہیں کرن جوہر نے خود کال کر کے اپنی فلم ’دھڑک‘ کے ذریعے اداکاری کا پہلا موقع دیا۔
سٹار کڈز کے ذہنوں میں انتہائی کم عمری سے یہ بات نقش کر دی جاتی ہے کہ وہ اداکاری کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں یا پھر اس کام کے لیے جو ان کے والدین شو بزنس کی دنیا میں کرتے آ رہے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ سٹار کڈز کا بچپن تعلیمی اداروں میں کم اور فلم سیٹ اور ان سے وابستہ تقریبات میں زیادہ گزرتا ہے۔ بہترین ایکٹنگ کوچز، جم ٹرینرز، سٹائلش، فوٹوگرافرز اور میڈیا گرومنگ سب کچھ بچپن سے جڑ جاتی ہے۔ عام بچے یہ خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔
اگر ان سٹار کڈز کے والدین کا حلقہ اثر و رسوخ والا ہے تو لانچ ہوتے ہی ایک دو نہیں تین چار فلمیں ان کی جھولی میں آ گرتی ہیں۔ گھر میں شاہ رخ خان، سلمان خان، عامر خان، اکشے کمار یا پھر فرح خان یا کرن جوہر یا پھر ادتیہ چوپڑا آتے جاتے رہیں توایک فون کال سے کام ہو جاتا ہے۔ یعنی جو اننگز دوسرے صفر سے شروع کرتے ہیں یہ سٹار کڈز 50 ناٹ آؤٹ سے شروع کرتے ہیں۔
یہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ان سٹار کڈز کو ان کے والدین سے زیادہ میڈیا میں جگہ ملتی ہے۔ ذرا دور حاضر کے سٹار کڈز کا جائزہ لیں تو ان کی فلموں میں آمد سے پہلے ہی انہیں وہ خصوصی اہمیت ملنا لگتی ہے کہ جیسے وہ خود سپر سٹار ہوں۔
آریان خان، سارہ علی خان، جھانوی کپور ہوں یا پھر کوئی اور، ان کے فلموں میں آنے سے پہلے ذرائع ابلاغ ان کے تعاقب میں رہے۔ فلم آئے یا نہ آئے، ان کے انسٹاگرام پر لاکھوں فالوورز پہلے سے موجود۔ ان سٹار کڈز کے کپڑوں سے لے کر چائے پینے کے انداز تک خبر بن جاتی ہے۔ یہاں یہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ چونکہ یہ جین زی کڈز ہیں تو سوشل میڈیا کی طاقت کو سمجھتے ہوئے اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
کیا والدین کا نام ہی کافی ہے؟
ضروری نہیں کہ ہر سٹار کڈ کی قسمت میں چمکتا ستارہ بننا لکھا ہو۔ مبصرین کہتے ہیں کہ جتنی آسانی کے ساتھ ان سٹار کڈز کو بالی وڈ میں انٹری ملتی ہے اتنی ہی تیزی سے ’مسترد‘ کا ٹھپہ بھی لگ جاتا ہے۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو سٹار کڈز کے لیے صرف والدین کے نام ہی نہیں ٹیلنٹ ایک مرحلے پر اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر ٹیلنٹ ہوتا تو کمار گورو، فردین خان، ادھے چوپڑہ، توشر کپور، مہاشک چکرورتی، تانیشا مکرجی، زیاد خان، ایشا دیول، کرن دیول، یا پھر جنید خان آج ناکامی کے گھپ اندھیروں میں گم نہ ہوتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہاں یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ کیا سٹار کڈز اپنی الگ کوئی شناخت بنا پاتے ہیں؟ تو اس سلسلے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ایک طویل سفر طے کرنا پڑتا ہے تب جا کر یہ اپنے اوپر سے والدین کی پرچھائیاں ہٹانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
لیکن یہ سچائی ہے کہ چاہے کتنی بھی محنت کر لیں، طعنہ تو یہی سننے کو ملتا ہے کہ یہ مقام انہیں والدین کی وجہ سے ملا۔ سونم کپور، ابھیشیک بچن، کرینہ کپور برملا کئی انٹرویوز میں اس بات کا اظہار کر چکی ہیں کہ سٹار کڈ کا لیبل انہیں تکلیف دیتا ہے۔
اسی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ ان سٹار کڈز پر غیر معمولی دباؤ بھی ہوتا ہے۔ بالی وڈ کے بادشاہ شاہ رخ خان کہتے ہیں کہ ان کے بیٹے آریان خان پر بہت دباؤ رہتا ہے۔ کیونکہ ان کی سوشل میڈیا پر ایک غلط تصویر بھی وائرل ہو تو ’خاندان کی عزت‘ کا سوال بن جاتا ہے۔ گذشتہ ڈیڑھ دو برس پہلے جب آریان خان پولیس کی گرفت میں آئے تو ان کی ہی نہیں شاہ رخ خان کی ساکھ بھی داؤ پر لگی ہوئی تھی۔
بہتر مواقع ناکامی کے باوجود
سٹار کڈز کی اداکاری یا ٹیلنٹ کو والدین سے موازنہ کرکے جانچا جاتا ہے۔ ہر ایک کی ان سے توقعات حد سے زیادہ ہوتی ہیں۔ یہ اسی کا اثر ہے کہ ابھیشک بچن ایک طویل عرصے تک اپنی شناخت کے لیے جدوجہد کرتے نظر آئے ہیں۔
سٹار کڈز سے یہ شکوہ بھی کیا جاتا ہے کہ یہ نئے ٹیلنٹ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس کی مثال یوں دی جاتی ہے کہ سوشانت سنگھ راجپوت کو ہدایت کار اور فلم ساز کرن جوہر نے صرف ایک فلم میں موقع دیا جبکہ ارجن کپور کو ناکامی کے باوجود تواتر کے ساتھ مواقع ملتے رہے۔ اسی طرح رنویر سنگھ کہتے ہیں کہ وہ چھ سال تک آڈیشن دیتے رہے اور ایک صبر آزما انتظار کے بعد انہیں بڑی مشکل سے فلم ’بینڈ باجا برات‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔
اب یہ تو ان کی خوش قسمتی تھی کہ یہ فلم باکس آفس پر زبردست کاروبار کر گئی۔ اگر نہ چلتی تو رنویر سنگھ بھی ماضی کی یاد بن کر رہ جاتے۔ کچھ ایسی ہی داستان نواز الدین صدیقی کی بھی ہے جو فلموں میں واجبی نوعیت کے کردار ادا کرتے رہے۔ پنکج ترپاتھی 15 سال تک معمولی نوعیت کے کرداروں میں آتے رہے اور پھر ’مرزا پور‘ اور ’سکوڈ گیمز‘ سے مقبولیت کا سفر طے کیا۔
’راج کمار راؤ‘ کی کہانی بھی کچھ مختلف نہیں، باقاعدہ اداکاری سیکھی لیکن کئی فلموں میں ہیرو کے پس منظر میں کھڑے ہو کر اوسط درجے کے کردار نبھاتے رہے اور پھر قسمت نے رحم کھایا تو ’بریلی کی برفی‘ اور پھر ’ستری‘ جیسی فلمیں ان کے کیرئیر میں سنگ میل ثابت ہو گئیں۔
ایسا سٹار کڈز کے ساتھ معاملہ نہیں۔ ابھیشک بچن کی ابتدائی درجن بھر فلمیں فلاپ رہی ہیں لیکن پھر بھی انہیں ایک کے بعد ایک موقع ملتا رہا۔
بوبی دیول کی پہلی فلم ہٹ رہی لیکن پھر سال 2000 کے بعد وہ ناکامی کے بھنور میں ایسے پھنسے کہ دوبارہ ابھر ہی نہ سکے۔ بھلا ہو 2023 میں نمائش پذیر ہونے والی فلم ’اینیمل‘ کا جس نے بوبی دیول کو دوبارہ سے لائم لائٹ میں جگہ دے دی۔
جھانوی کپور اب تک رقص اور ہوشربا مناظر کے علاوہ کسی بھی فلم میں کوئی جاندار پرفارمنس نہیں دے سکیں۔ کوئی ایک ایسی فلم پرستاروں کو ان کی یاد نہیں کہ وہ یہ کہہ اٹھیں کہ جھانوی کپور نے والدہ سری دیوی کے ٹکر کی پرفارمنس دی ہے لیکن اس کے باوجود وہ بڑے بجٹ کے بڑے ہیروز کی فلموں میں نظر آتی ہیں کیونکہ سرمایہ کاری پس پردہ ان کے والد بونی کپور بھی کر رہے ہوتے ہیں۔
کچھ ایسا ہی معاملہ سارہ علی خان اور اننیا پانڈے کے ساتھ بھی ہے۔ رنبیر کپور نے 2007 میں فلم ’سانوریا‘ سے بطور ہیرو اپنے سفر کا آغاز کیا اور چار سال تک ناکام فلموں میں کام کرنے کے بعد 2011 میں فلم ’راک سٹار‘ سے خود کو سپر سٹار بنایا۔ ہٹ فلم ’اینیمل‘ سے پہلے ان کی لگا تار تین بڑے بجٹ کی فلمیں بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئیں۔
اس تناظر میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان سٹار کڈز کو سہارا دینے کے لیے جہاں ان کے والدین ہوتے ہیں وہیں ان کا حلقہ بھی ہر دم تیار رہتا ہے۔
آریان خان کا بطور ہدایت کار پہلا شاہکار حال ہی میں جاری ہوا ہے جس میں بالی وڈ کے ہر چمکتے دمکتے ستارے نے اپنی جھلک دکھائی۔
اگر یہی کچھ کوشش کوئی اور ہدایت کار کرتا تو اسے جان جوکھم سے گزرتا پڑتا لیکن آریان خان کی اس ویب سیریز کے لیے ہر ستارہ موجود تھا کیونکہ آریان خان، شاہ رخ خان کے صاحب زادے جو ٹھہرے۔ اسی طرح ہدایت کار یش چوپڑہ کے بیٹے ادتیہ چوپڑہ نے اپنی پہلی فلم ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ بنائی تو انہیں والد کی وجہ سے ہر قدم پر آسانیاں اور سہولتیں ہی ملیں۔
اقربا پروری اور بالی وڈ
انڈین فلم نگری میں ہر تھوڑے عرصے بعد اقربا پروری پر بیان بازی ہوتی ہے لیکن پھر یہ معاملہ اچانک پانی کے بلبلے کی طرح بیٹھ بھی جاتا ہے۔ وہ ہدایت کار جو ان سٹار کڈز کو اپنی تخلیقات میں متعارف کراتے ہیں ان کا موقف یہی ہے کہ سٹار کڈز کی وجہ سے فلموں کو شروع سے ہی مفت تشہیر ملتی ہے۔ پروڈیوسرز انہیں محفوظ سرمایہ کاری سمجھتے ہیں کیونکہ ان کی ’فین بیس‘ پہلے ہی بنی ہوتی ہے۔
یہ درست ہے کہ بالی وڈ کو فری مارکیٹنگ اور سٹار پاور ملتی ہے، مگر نئے ٹیلنٹ کے لیے جگہ کم سے کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ سٹار کڈ ہونا ایک دو دھاری تلوار ہے۔ آغاز تو آسمان سے ملتا ہے لیکن اڑنا خود ہی سیکھنا پڑتا ہے جو محنت کرتے ہیں وہ عالیہ بھٹ، ورن دھوان، رتھک روشن یا پھر شردھا کپور کی طرح اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔
جو صرف ’سٹار کڈ‘ بن کر رہ جاتے ہیں، وہ برسوں تک کامیابی کے لیے ترستے رہتے ہیں اور پھر ایک وقت وہ بھی آتا ہے کہ دل برداشتہ ہو کر اس فلم نگری کو الوداع کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔