ایک سینیئر سرکاری عہدیدار نے بتایا ہے کہ آئندہ سال پہلی بار پاکستان میں چھتوں پر نصب سولر پینلز سے شمسی توانائی کی پیداوار کچھ بڑے صنعتی علاقوں میں دن کے اوقات میں قومی گرڈ پر بجلی کی طلب سے تجاوز کر جائے گی۔
یہ صورت حال حالیہ برسوں میں ملک میں سولر پینلز کی تنصیب میں ریکارڈ تیزی کی عکاسی کرتی ہے جس سے کاربن کے اخراج میں کمی آئی ہے اور کچھ لوگوں کے بجلی کے بل کم ہوئے ہیں، لیکن قومی گرڈ پر بجلی کی طلب میں طویل کمی کی وجہ سے قرضوں میں جکڑے توانائی کے شبعے کے مالی معاملات بھی متاثر ہوئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کی وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی کی سیکریٹری عائشہ موریانی نے برازیل میں اقوام متحدہ کی ماحولیاتی کانفرنس کوپ 30 کے موقعے پر بتایا: ’پاکستان دن کے مخصوص اوقات میں گرڈ سے منسلک منفی طلب کا سامنا کرے گا کیوں کہ چھت پر لگے سولر پینلز اتنی بجلی بنا رہے ہیں کہ وہ گرڈ سے بجلی لینے کی ضرورت پوری طرح سے ختم کر دیں گے۔‘
اگرچہ یورپ اور آسٹریلیا کے خطوں میں بعض اوقات شمسی توانائی کی اضافی فراہمی اور کم طلب کی وجہ سے بجلی کی منفی قیمتوں کا سامنا ہوتا ہے، پاکستان ان پہلی بڑی ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں شامل ہوگا، جہاں چھتوں پر لگے سولر پینلز سے بجلی کی پیداوار بڑے علاقوں میں طویل مدت کے لیے گرڈ سے منسلک طلب سے مکمل طور پر تجاوز کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’منفی طلب‘ کا امکان شمال مغربی شہر لاہور میں ہے، جہاں ملک میں شمسی توانائی کا استعمال سب سے زیادہ ہے، اس کے بعد فیصل آباد اور سیالکوٹ ہیں، جہاں صنعتی علاقے شمسی توانائی اپنانے میں محرک بن رہے ہیں۔
بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور قیمتوں میں اضافے نے پاکستان کے 25 کروڑ لوگوں کو شمسی توانائی اپنانے میں تیزی لانے پر مجبور کیا ہے اور اسے دنیا کا تیسرا سب سے بڑا پینل درآمد کنندہ بنا دیا ہے، جہاں توانائی کی پیداوار میں شمسی توانائی کا حصہ اس کے پڑوسی ملک چین سے زیادہ ہے۔
کوپ 30 میں پاکستان کی مرکزی مذاکرات کار عائشہ موریانی نے کہا کہ ملک میں منفی طلب کی صورت حال زیادہ کثرت سے دیکھنے کو ملے گی، خاص طور پر گرمیوں کی روشن دوپہروں، کارخانوں میں چھٹیوں اور زیادہ شمسی پیداوار والے معتدل درجہ حرارت کے دنوں میں۔
انہوں نے کہا: ’پاکستان میں چیلنج یہ نہیں ہے کہ قابل تجدید توانائی بڑھے گی یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ گرڈ، ضوابط اور مارکیٹ ڈیزائن کتنی تیزی سے اس کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان بڑے شمسی توانائی صارفین کے لیے نئے ٹیرف متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ فیس کے ڈھانچے میں تبدیلیاں کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ پینل والے کاروبار گرڈ کی دیکھ بھال کے اخراجات میں یکساں طور پر حصہ ڈالیں۔
پاکستان کی گرڈ سے منسلک بجلی کی طلب میں اس سال 4-3 فیصد اضافے کی توقع ہے، جو تاریخی اوسط سے سست ہے۔ عائشہ موریانی نے کہا کہ اگلے سال کھپت میں زیادہ تیزی سے اضافے کی توقع ہے لیکن شمسی توانائی کے زیادہ استعمال سے یہ زیادہ متاثر ہو سکتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ شمسی توانائی کے استعمال میں اضافے نے پاکستان کو سب سے بڑے سپلائر قطر کے ساتھ اپنے ایل این جی معاہدوں پر نظر ثانی کرنے اور اٹلی کی توانائی کمپنی ای این آئی کی طرف سے فراہم کردہ کارگوز کو منسوخ کرنے پر بھی مجبور کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کم قیمتوں، ترسیل کے لچکدار شیڈول اور ممکنہ طور پر کم کارگوز کی تلاش میں ہے۔
عائشہ موریانی کہا کہ اگرچہ کوپ 30 میں قطر کے ساتھ کوئی باضابطہ مذاکرات نہیں ہوئے، لیکن اس تقریب نے ’توانائی کے وزرا اور تجارتی نمائندوں کے ساتھ رابطے کے لیے سفارتی جگہ‘ فراہم کی۔
’بنیادی مقصد پاکستان کی گیس درآمدی حکمت عملی کو مالی گنجائش، طلب کی صورت حال اور موسمی رجحانات کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے۔ پاکستان استحکام اور استطاعت کا خواہاں ہے، ایل این جی پر انحصار میں توسیع کا نہیں۔‘