چشمہ رائٹ بینک کینال کے لیے فنڈز دیے جائیں: سہیل آفریدی کا وزیر اعظم کو خط

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی نے وزیر اعظم شہباز شریف سے ایک خط میں چشمہ رائٹ بینک کینال لفٹ کنال منصوبے کے لیے فنڈز کا فوری انتظام اور پراجیکٹ پر کام شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔

خیبرپختونخوا کے نئے نامزد وزیراعلیٰ سہیل آفریدی ایک عوامی احتجاج کے دوران نعرہ لگا رہے ہیں (سہیل آفریدی فیس بک پیج)

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی نے وزیر اعظم شہباز شریف سے چشمہ رائٹ بینک کینال (سی آر بی سی) لفٹ کنال منصوبے کے لیے فنڈز کا فوری انتظام اور پراجیکٹ پر کام شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ مطالبہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کی جانب سے وزیر اعظم شہباز شریف کے نام ایک خط میں سامنے آیا، جو صوبائی حکومت نے منگل کو میڈیا سے شیئر کیا۔

چشمہ رائٹ بینک کینال (سی آر بی سی) پاکستان میں آبپاشی کا ایک بڑا نظام ہے جو دریائے سندھ پر چشمہ بیراج سے نکلتا ہے۔ اسے خیبرپختونخوا اور پنجاب کے جنوبی اضلاع میں بنجر زمینوں تک پانی پہنچانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، جس کا مقصد زرعی پیداوار کو بڑھانا ہے۔

سی آر بی سی نہر دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر واقع چشمہ بیراج سے پانی لیتی ہے۔ یہ منصوبہ جنوب کی طرف دریائے سندھ پر تونسہ بیراج تک پھیلا ہوا ہے اور خیبرپختونخوا اور پنجاب دونوں صوبوں میں زمین کو سیراب کرتا ہے۔

منصوبے کا بنیادی ہدف زرعی پیداوار اور معاش کو بہتر بنانے کے لیے قابل کاشت کمان والے علاقوں کو آبپاشی فراہم کرنا ہے، جن کی کل تعداد 600,000 ایکڑ ہے۔

ایک اہم حالیہ جزو چشمہ رائٹ بینک لفٹ-کم-گریویٹی منصوبہ ہے، جس کا مقصد ڈیرہ اسماعیل خان، خیبر پختونخوا میں اضافی دا لاکھ 86 ہزار سے تین لاکھ ایکڑ بنجر زمین کو سیراب کرنا ہے۔

منصوبے کے اس نئے حصے میں پانی اٹھانے کے لیے پمپنگ سٹیشن اور فیڈر کینال شامل ہے۔

سہیل آفریدی نے خط میں لکھا کہ خیبر پختونخوا میں فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے منصوبے کے آغاز میں 35 سالہ تاخیر وفاق اور صوبے کے درمیان عدم اعتماد میں اضافہ کر رہی ہے، جبکہ چاروں صوبوں کے میگا آبپاشی منصوبوں میں صرف سی آر بی سی واحد منصوبہ ہے جس پر عملی پیش رفت نہیں ہو سکی۔

وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے مزید لکھا کہ ’1991 کے واٹر اپورشنمنٹ ایکارڈ کے تحت دیگر تینوں صوبوں کے منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔ 2016 میں مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے اس منصوبے کی فنانسنگ میں 65 فیصد وفاق اور 35 فیصد خیبر پختونخوا کا حصہ مقرر کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’تاہم وفاقی حکومت کی جانب سے خیبر پختونخوا کے اس اہم منصوبے کو مسلسل سردخانے میں ڈالے رکھنا انتہائی افسوسناک ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس کے باوجود کہ ایکنک نے اکتوبر 2022 میں 189 ارب روپے کی باقاعدہ منظوری دے دی تھی لیکن منصوبے پر عملدرآمد شروع نہ ہو سکا۔‘

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ واپڈا کی جانب سے پروکیورمنٹ، پری کوالیفکیشن اور لینڈ ایکوزیشن جیسے بنیادی مراحل میں مسلسل تاخیر سامنے آ رہی ہے۔ 

انہوں نے دعویٰ کیا کہ صوبائی حکومت نے اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے 2024-25 میں زمین خریداری کے لیے دو ارب روپے جاری کیے اور 2025-26 کے بجٹ میں مزید پانچ ارب روپے مختص کیے جانا ہیں۔

’مگر واپڈا کی جانب سے لینڈ ایکوزیشن کا عمل سست روی کا شکار ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’وفاق کی جانب سے پی ایس ڈی پی میں 2025-26 کے لیے صرف 10 کروڑ روپے کی انتہائی کم الاٹمنٹ اس منصوبے کے حوالے سے غیر سنجیدہ رویے کو ظاہر کرتی ہے۔ حالانکہ سی آر بی سی منصوبہ دہشت گردی سے متاثرہ جنوبی اضلاع کی معیشت اور زراعت کی بحالی میں مرکزی کردار ادا کرے گی۔ 

’منصوبہ 2.8 لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی کو سیراب کرنے اور سالانہ 38 ارب روپے سے زیادہ معاشی فائدہ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘

انہوں نے وفاقی حکومت سے پی ایس ڈی پی یا ڈونر فنانسنگ کے ذریعے سی آر بی سی کے لیے مطلوبہ فنڈنگ فراہم کرنے اور منصوبے پر عملی کام بلا تاخیر شروع کروانے کا مطالبہ کیا۔ 

خط میں کہا گیا کہ ’تاخیر صوبے کے عوام میں شدید بے چینی اور اعتماد کے بحران کو جنم دے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان