مولانا کے دھرنے کا منشور کیا ہے؟

70 سال سے یہی کچھ ہو رہا ہے اور آگے بھی یہی ہو گا۔ موجودہ جمہوریہ انہی سب کے لیے ہے اور اس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

مولانا کشمیر کو کس طرح آزاد کرائیں گے، اس بات پر وہ ابھی تک مکمل خاموش ہیں (اے ایف پی)

عمران خان کے سیاسی فلسفے کے مطابق مولانا فضل الرحمان ایک اچھے سیاست دان نہیں ہیں اس لیے کے وہ دھرنے کے معاملے میں یو ٹرن لینے کو تیار نظر نہیں آ رہے۔

مگر اس کے علاوہ ان دونوں بلکہ پاکستان کے تمام سیاست دانوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں لفاظی کے ماہر ہیں اور جھوٹے وعدے کرنے میں دونوں کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ دونوں سیاسی انجینیئروں کے چہیتے رہے ہیں اور اب بھی کشمکش اسی بات کی ہے کہ زیادہ چہیتا کون ہے۔ مولانا کو سارا غصہ نئے لاڈلوں سے ہے مگر سیاسی انجینیئروں سے اب  بھی انہیں کوئی شکوہ نہیں بلکہ وہ قسمیں کھانے کو تیار ہیں کہ ان کا دھرنا ان کے خلاف نہیں ہے۔ 

مگر اس سے آگے بڑھ کے یہ دیکھتے ہیں کہ مولانا کے دھرنے کا سیاسی منشور کیا ہے۔

پہلی بات وہ یہ کر رہے ہیں کہ عمران خان کی حکومت نے کشمیر کے تنازعے میں پاکستان کے حقوق کو نقصان پہنچایا ہے۔ بات بالکل ٹھیک ہے مگر مولانا کشمیر کو کس طرح آزاد کرائیں گے، اس بات پر وہ ابھی تک مکمل خاموش ہیں۔ یہی نہیں بلکہ جب وہ کشمیر پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین تھے اس وقت بھی کشمیر ان کی نظروں سے کوسوں دور تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری بات مولانا یہ کہتے ہیں کہ غریبوں کی زندگی افراط زر اور اقتصادی بدحالی نے اجیرن کر دی ہے۔ یہ بات بھی بالکل ٹھیک ہے مگر اس مسئلے کا حل کیا ہے اور مولانا کے پاس غریبوں کے لیے کیا پلان ہے، اس پر بھی وہ مکمل خاموش ہیں۔

تیسری بات مولانا یہ کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت نااہل اور ناجائز ہے مگر وہ یہ نہیں بتا رہے کہ جائز حکومت کس طرح آئے گی؟ اسی طرح کی ناجائز حکومتیں جب سے پاکستان بنا ہے ہمارے مقدر میں لکھی ہیں۔ 

مجھے اس بات پر کوئی زیادہ حیرت نہیں ہوئی کہ میاں نواز شریف نے مولانا کے دھرنے کی حمایت کی ہے۔ میاں صاحب کو اپنی پارٹی کا پتہ ہے کہ وہ دھرنے یا احتجاج کی سیاست نہیں کر سکتے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ پنجاب لے لوگ نہ انقلابی ہیں اور نہ احتجاج کی سیاست کو پسند کرتے ہیں۔

میاں صاحب یہ بھی جانتے ہیں کہ پارلیمان بھی بس دکھانے کی چیز ہے جس کے پاس نہ اختیارات ہیں اور نہ ان کے پارلیمانی ارکان میں صلاحیت ہے کہ وہ ایک کامیاب حزب اختلاف بن سکیں۔

ایسی صورت میں اگر حکومت پر دباؤ ڈالنا ہے تو ان کے پاس اس کے علاوہ کیا آپشن ہے کہ وہ مولانا کے دھرنے کی حمایت کریں؟

میں میاں صاحب کو ایک انتہائی باصلاحیت اور تجربہ کار سیاست دان سمجھتا ہوں جو ہماری سیاست کی رگ رگ سے واقف ہیں۔ صرف ایک بات میرے ذہن میں واضح نہیں ہے۔ دھرنے کا اختتام اس بات پر ہو گا کہ ایک معاہدے پر دستخط ہوں گے اور جب ایسا ہوگا تو میاں صاحب کے ’ووٹ کو عزت دو‘ بیانیے کا کیا ہو گا؟

اس دھرنے سے صرف عمران خان کی حکومت کا جنازہ نہیں نکلے گا بلکہ میاں صاحب بھی ایک دفعہ پھر روایتی سیاست دان بن جائیں گے۔ میاں صاحب کو میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کے ملک بدل رہا ہے اور انہیں اس بدلے ہوئے ملک میں ایک نئے انداز سے سوچنا چاہیے۔ 

چونکہ یو ٹرم فیشن میں ہے تو وہ میڈیا جو 2014 کے دھرنے کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا تھا وہ یو ٹرن لے کر اب دھرنوں سے ہونے والے نقصانات پر روشنی ڈال رہا ہے۔ اور جو دھرنے کے مخالف تھے وہ اب دھرنے کے فوائد ہمیں گنوا رہے ہیں۔ 

میں 2014 میں بھی دھرنوں کے خلاف تھا اور آج بھی ہوں۔ ان دھرنوں نے اس ملک کے لوگوں کو دکھوں کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ وہ سیاسی پارٹیاں جو پارلیمان میں بیٹھی ہوں وہ سڑکوں پر سیاست نہیں کرتیں۔ ہمارے سیاست دان زیادہ وقت لندن میں گزارتے ہیں مگر ان سے پارلیمانی روایات سیکھنے کو تیار نہیں۔ بریگزٹ کے معاملے پر برطانیہ کی دونوں بڑی پارٹیوں میں شدید کشمکش ہے مگر مجال ہے کسی نے دھرنے کی دھمکی دی ہو۔

اب آخر میں آپ سب اس بات کا تصور کریں کے مولانا کے کامیاب دھرنے کے بعد عمران خان، مولانا، شہباز شریف اور بلاول معاہدے پر دستخط کریں گے اور ضامن کوئی جنرل ہو گا۔

70 سال سے یہی کچھ ہو رہا ہے اور آگے بھی یہی ہو گا۔ موجودہ جمہوریہ انہی سب کے لیے ہے اور اس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اب ایک نئی جمہوریہ ہی حقیقی تبدیلی لا سکتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ