’آثارِ قدیمہ کا تنازع‘: بابری مسجد کیس سماعت اس ہفتے مکمل ہوگی

1992 انتہاپسند ہندوؤں کے ہاتھوں بابری مسجد کے انہدام سے بھارت بھر میں فرقہ وارانہ فسادات کی لہر دوڑ گئی تھی۔ اب سپریم کورٹ کو فیصلہ کرنا ہے کہ یہاں مسجد بنے گی یا مندر، جس کا وعدہ مودی نے کر رکھا ہے۔

6 دسمبر 1992 کو لی گئی اس تصویر میں  ہندو نوجوان 16 ویں صدی میں بنی بابری مسجد  کے گنبد پر کھڑے ہیں۔ کچھ گھنٹوں بعد   ہندو قوم پرستوں نے بابری مسجد کو منہدم کردیا تھاجس کے نتیجے میں ملک میں فسادات پھوٹ پڑے تھے (اےا یف پی)

بھارت میں رواں ہفتے آثارِ قدیمہ کے ایک اہم ترین تنازعے کے مقدمے کی سماعت اختتام پذیر ہونے جارہی ہے جس نے کئی دہائیوں سے پورے ملک کو تقسیم کر رکھا ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ سماعت کر رہی ہے کہ ریاست اتر پردیش کے شہر ایودھیہ میں اُس مقام کا کیا کیا جائے جہاں 1992 میں ہندو قوم پرستوں نے بابری مسجد کو منہدم کردیا تھا۔ اس واقعے کے بعد ملک میں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔

ہندوؤں کا موقف ہے کہ یہ مقام ان کے بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے اور اس دعوے کی توثیق 2003 میں ہونے والے محکمہ آثارِ قدیمہ کے سروے سے بھی ہوتی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ جس مقام پر 16ویں صدی میں بابری مسجد قائم کی گئی تھی وہاں ایک مندر ہوا کرتا تھا۔ 

مئی میں وزیر اعظم نریندر مودی کے دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد اس معاملے نے دوبارہ سر اٹھایا ہے۔ مودی کی قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے بابری مسجد کے منہدم کیے جانے کے مقام پر ایک نیا مندر تعمیر کرنے کی مہم شروع کی تھی۔

یہ مقدمہ تین فریقین کے درمیان زمین کے حقوق کا تنازع ہے، جن میں مسجد کا نمائندہ ریاستی سنی وقف بورڈ، رام کے عقیدت مند جو اس مقام پر عارضی طور پر مندر کو برقرار رکھے ہوئے ہیں اور بھگوان رام  کی نمائندگی کرنے والے اعلیٰ وکلا۔

بھارتی قوانین کے مطابق ہندو دیوتا کسی کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر سکتے ہیں جبکہ ان کے خلاف بھی قانونی چارہ جوئی ہو سکتی ہے۔

سپریم کورٹ کے ججوں نے سماعت کے اختتام کے لیے جمعرات (17 اکتوبر) کی تاریخ مقرر کی ہے، جس کے بعد  17 نومبر تک اس مقدمے کا فیصلہ سنائے جانے کا امکان ہے۔

اس دن اس کیس کی سماعت کرنے والے بینچ کے سربراہ اور بھارتی چیف جسٹس رانجن گوگوئی اپنے عہدے سے ریٹائر ہونے جا رہے ہیں۔

ایک ماہر آثار قدیمہ نے ’دی انڈپینڈنٹ‘ کو بتایا کہ حالیہ ہفتوں میں عدالت میں پیشی کے کئی دنوں میں قدیم مندر کے لیے آثار قدیمہ کے ثبوتوں کا معاملہ غیر متوقع طور پر مرکزی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔

یہ حیرت انگیز ہے کیونکہ اس کا ثبوت بہت ہی ناقص ہے۔

03-2002 میں بھارت کے محکمہ آثار قدیمہ نے اس مقام کی کھدائی کی تھی۔ اس کی 574 صفحات پر مشتمل حتمی رپورٹ میں بتایا گیا کہ بابری مسجد سے پہلے اس جگہ پر پائے جانے والے  واحد آثار مغربی کنارے کے ساتھ ایک بڑی دیوار اور مرکزی حصے کے اُس پار 50 چھوٹے ’ستونوں کی بنیادوں‘ پر مشتمل ہیں۔

رپورٹ کے آخر میں محکمہ آثارِ قدیمہ نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ایک ’بڑے پیمانے پر تعمیر‘ کا ثبوت ہے اور اس وجہ سے یہاں ماضی میں ممکنہ طور پر بھگوان رام کا مندر موجود ہو سکتا تھا۔

تاہم غیر جانب دار مبصرین نے محکمہ آثارِ قدیمہ کے نتائج پر سوال اٹھائے ہیں۔ بھارتی یونیورسٹیوں کے چھ یا سات سرکردہ ماہرین تعلیم کو اس سلسلے میں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں سرکاری محکمے کے آثارِ قدیمہ کے ماہرین نے مذکورہ مقام تک محدود رسائی فراہم کی۔

لیکن ان مبصرین نے اپنی شہادت میں کہا ہے کہ محکمہ آثارِ قدیمہ کی رپورٹ میں اصل شواہد کسی قدیم مندر کی طرف اشارہ نہیں کرتے، کیوں کہ اگر یہ مندر ہوتا تو اس میں کم از کم ایک چوکور بنیاد ضرور موجود ہوتی، لیکن موجودہ شواہد اس امکان کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ اس مقام پر ایک بڑی مسجد موجود تھی۔

دو مبصرین نے 2010 میں ایک علمی مقالہ بھی شائع کیا جس میں کہا گیا: ’یہ ظاہر ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ منہدم مسجد کے نیچے کسی مندر کی باقیات کو دریافت کرنے کے تصور کے تحت ہی کام کر رہا تھا، یہاں تک کہ اس مفروضے کے مطابق ہی ثبوتوں کو بھی منتخب کیا گیا تھا۔‘

اسی سال اس معاملے پر سماعت کرنے والی الہ آباد ہائی کورٹ نے اس جگہ کو قانونی چارہ جوئی کرنے والے تینوں فریقین کے مابین تقسیم کرنے کی سفارش کی تھی- یہ اُسی فیصلے کی اپیل ہے، جس پر اب سپریم کورٹ سماعت کر رہی ہے۔

’دی انڈپینڈنٹ‘ سے بات کرتے ہوئے 2003 کے ایک آزاد مبصر نے بتایا کہ عدالت کے فیصلے سے قطع نظر، اس کیس میں سائنسی شواہد پر الجھن نے بھارت میں علم اثار قدیمہ کی ساکھ پر سایہ ڈال دیا ہے۔

دہلی میں جواہر لال یونیورسٹی کی پروفیسر سپریہ ورما کا کہنا ہے کہ ایودھیہ کے کیس کو آثار قدیمہ کا اہم ترین تنازع کہا جا سکتا ہے، مگر بھارت ’امریکہ اور یورپ کی طرح نہیں ہے جہاں لوگوں کو بہتر معلومات ہیں کہ آثار قدیمہ ہمیں کیا بتا سکتا ہے اور کیا نہیں۔‘

انہوں نے کہا: ’عدالت میں ایک موقف یہ اختیار کیا جا رہا ہے کہ یہ ایک سوشل سائنس ہے اور اس میں تشریح کی گنجائش ہے، جبکہ دوسرا موقف یہ ہے کہ علم آثار قدیمہ ٹھوس سائنس ہے اور مکمل طور پر درست ہے۔ تو ظاہر ہے کہ یہاں مسئلہ ہے۔‘

سائنسی شواہد کی غلط تشریح کی وجہ سے کئی دہائیوں سے جج اور سیاست دان اسے یا تو قبول کرتے آئے ہیں یا نہیں۔ اور آخر کار اس معاملے کا فیصلہ جاری دور کے سیاسی مقاصد پر ہی کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر ورما نے کہا: ’یہ بہت مایوس کن ہے اور ایک طرح سے یہ اس علم  پر بےاعتمادی کا باعث بھی بنتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کچھ مسلم تنظیموں نے اس کیس پر شواہد کی بنیاد پر جرح کرنا بند ہی کر دیا ہے اور ریاستی اور ملکی سطح پر بڑھتی ہندو قوم پرستی کی وجہ سے مطالبہ کیا ہے کہ تازہ فسادات کو روکنے کے لیے اس مسئلے پر عملی  طریقہ کار اپنایا جائے۔

گذشتہ ہفتے ’امن کے لیے بھارتی مسلمان‘ کے نام سے سابق سرکاری افسروں اور مسلم  دانشوروں پر مشتمل ایک تنظیم نے تجویز دی کہ معاملے کا حل عدالت سے باہر ہی  ہو جائے جس میں متازع جگہ تحفے کے طور پر مقدمہ لڑنے والے ہندووں کو دے دی جائے تاکہ وہ اس پر اپنا مندر بنا سکیں۔ تاہم اس کے بدلے میں ’پکی ضمانت‘ دی جائے کہ جو انجام 1992 میں بابری مسجد کا ہوا وہ ملک بھر میں دیگر مساجد کے ساتھ نہ ہو۔

 

سابق ڈپٹی چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضمیرالدین شان نے کہا: ’ہمیں سچائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر عدالت مسلمانوں کے حق میں فیصلہ دے بھی دے تو بھی کیا وہاں (ایودھیہ پر) مسجد بنانا ممکن ہو گا؟ ملک میں بھڑکتا ماحول دیکھ کر تو لگتا ہے کہ یہ ایک خواب ہے جو پورا نہیں ہو سکتا۔‘

’امن کے لیے بھارتی مسلمان‘ تنظیم عدالت میں زیرسماعت کیس میں خود شامل نہیں ہے اور اس کی تجویز کو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بھی رد کر دیا ہے جو بھارت میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی سب سے بڑی سرکاری تنظیم ہے۔

بورڈ کے ترجمان نے ’امن کے لیے بھارتی مسلمان‘کی تجویز کو ’شکست قبول کر لینا‘ قرار دیا اور کہا کہ وہ ’عدالت میں پیش کیے گئے دلائل سے پر امید ہیں اور اس کے فیصلے کے منتظر ہیں۔‘

تاہم  اس معاملے پر دہائیوں سے جاری بحث کے بعد اب سوال یہی ہے کہ آیا بھارت میں سب لوگ سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے پر عمل کرتے ہیں یا نہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا