’اداروں کو دائرہ کار میں رہنے کی ہدایت ناگوار گزری‘

سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کے معاملے پر ہونے والی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل نے کہا ہے کہ فیض آباد دھرنا کیس ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کی وجہ بنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے معاملے پر پیر کو سپریم کورٹ کے فُل کورٹ بینچ نے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں کیس کی سماعت ہوئی (سپریم کورٹ)

سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کے معاملے پر ہونے والی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل نے کہا ہے کہ فیض آباد دھرنا کیس ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کی وجہ بنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے معاملے پر پیر کو سپریم کورٹ کے فُل کورٹ بینچ نے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں کیس کی سماعت ہوئی۔ یہ اس معاملے پر ہونے والی تیسری سماعت تھی لیکن باضابطہ دلائل کا سلسلہ آج شروع ہوا۔

دلائل کے آغاز میں ہی وکیل منیر اے ملک نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ ہی جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس کی وجہ بنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کیوں کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں ’ملٹری انٹیلیجنس، آئی ایس آئی اور فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو اپنے دائرہ کار میں رہنے کی ہدایت کی تھی جو اُن اداروں کو ناگوار گزری اور جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف کیس بن گیا۔‘

منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’اعلیٰ آئینی عہدوں پر بیٹھے افراد کے اخراجات سے اختلاف ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔ لیکن یہاں معاملہ مختلف ہے ریفرنس دائر ہونے سے پہلے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف شکایت آئی۔ شکایت ملنے کے بعد متعلقہ مواد جمع کیا گیا۔‘

’صدر پاکستان نے تیسری سٹیج پر اپنی رائے قائم کی۔ چوتھے مرحلے میں ریفرنس باضابطہ دائر کیا گیا۔ جوڈیشل کونسل نے جس انداز میں کارروائی کی وہ بھی سامنے لائیں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے مستقبل میں چیف جسٹس بننا ہے۔ اس لیے 28 مئی 2019 سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی کردار کشی کی مہم جاری ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

منیر اے ملک نے موقف پیش کیا کہ پی ٹی آئی کی نظر ثانی درخواست وزارت دفاع کی درخواست سے زیادہ سخت ہے۔ اس بات کے جواب میں جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’ان درخواستوں کا حوالہ نہ دیں جو واپس لی جا چکی ہیں۔‘

اس پر قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل نے کہا کہ ایم کیو ایم کی درخواست واپس نہیں لی گئی تھی۔ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی دونوں اتحادی جماعتیں ہیں۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیس ایم کیو ایم کی درخواست پر رجسٹرار آفس نے اعتراض نہیں لگایا۔ تو جسٹس عمر عطا بندیال نے جواباً کہا کسی کے دماغ کو نہیں پڑھ سکتے لیکن بہرحال نظر ثانی درخواستوں پر متعلقہ عدالت فیصلہ کرے گی۔

منیر ملک نے نکتہ اٹھایا کہ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کی درخواستوں میں ایک جیسے سوالات اٹھائے گئے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا نظر ثانی درخواست میں جج کے خلاف کارروائی کا کہا گیا تھا؟ تو جسٹس عمر عطا بندیال نے تبصرہ کیا کہ جج کو ضمیر کی آواز تک بنچ سے الگ نہیں ہونا چاہیے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر مزید دلائل منگل کو دیے جائیں گے۔

منیر اے ملک اپنا موقف ثابت کرنے میں لگے رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں تحریک انصاف اور ایم کیو ایم اتحادی ہیں اور یہ دونوں جماعتوں کی مشترکہ کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیض آباد دهرنا کیس فیصلہ دو رکنی بینچ  کا تھا۔ جسٹس یحیی آفریدی نے استفسار کیا کہ اگر ریفرنس دو ججز کے خلاف ہوتا تو کیا بدنیتی نہ ہوتی؟ تو منیر اے ملک نے کہا کہ اگر ریفرنس دونوں ججز کے خلاف ہوتا تو میرا موقف مختلف ہوتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ممکن ہے درخواست گزار چاہتے ہوں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس نہ سنیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے پوچھا کیا عدالتی فیصلے کی بنیاد پر ریفرنس دائر ہو سکتا ہے؟ جب کہ جسٹس فیصل عرب نے تبصرہ کیا کہ لگتا ہے دونوں جماعتوں کے وکلا نے ڈرافٹ کا تبادلہ کیا ہے اور دونوں جماعتوں نے کمپیوٹر بهی ایک ہی استعمال کیا ہے۔ تو جسٹس منصور علی شاہ نے رائے دی کہ ’لگتا ہے دونوں درخواستیں ایک ہی فونٹ میں لکھی گئیں۔‘

سینیئر عدالتی صحافی عبدالقیوم صدیقی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے آج کی سماعت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ دس رُکنی بینچ میں سے آج چار ججز نے دلائل میں کافی دلچسپی لی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس منصور شاہ، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس منیب اختر اور جسٹس مقبول باقر آج کے فُل کورٹ بینچ میں کافی فعال نظر آئے۔

سینئر عدالتی صحافی ناصر اقبال نے تبصرہ کیا کہ آج کا بینچ ایک ہی مائنڈ سیٹ کے ساتھ نظر نہیں آیا۔ بلکہ ججز کی مختلف آرا سامنے آئی جس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ یہ درخواست خارج نہیں ہو گی بلکہ کوئی فیصلہ آئے گا اور اگر ایک دو ججز بھی اِدھر اُدھر ہو گئے تو قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں فیصلہ ہو جائے گا، کیونکہ منیر اے ملک نے دلائل بہت مدلل دیے ہیں جو ججز کا ذہن بنانے میں مدد کرے گا۔‘

وکیل حامد خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں جوڈیشل کونسل کی کارروائی پہ اعتماد نہیں تھا لیکن چونکہ یہ فُل کورٹ ہے اور کُھلی عدالت بھی ہے اس لیے پُر امید ہیں کہ ججز پر کوئی بیرونی دباؤ نہیں آئے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان