شام میں کارروائی: ٹرمپ نے ترکی پر پابندیاں عائد کردیں

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’اس تباہ کن اور خطرناک راستے پر چلنے سے باز نہ آنے‘ کی صورت میں ترکی کی معشیت کو ’تیزی سے تباہ‘ کرنے کا دعویٰ بھی کیا۔

امریکی  صدر ڈونلڈ   ٹرمپ نے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرتے ہوئے ترکی پر پابندیاں عائد کیں۔ (اے ایف پی)

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی پر نئی پابندیاں عائد کرتے ہوئے سو ارب ڈالر کا تجارتی معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہ اقدام ترکی کی جانب سے شمالی شام میں کردوں کے خلاف کی جانے والے کارروائی کے بعد دباؤ کے نتیجے میں اٹھایا گیا۔

صدر ٹرمپ نے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرتے ہوئے ترکی پر پابندیاں عائد کیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ترکی کے سٹیل پر ٹیرف میں بھی 50 فیصد اضافہ کر دیا۔

اپنے ایک بیان میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’اس تباہ کن اور خطرناک راستے پر چلنے سے باز نہ آنے‘ کی صورت میں ترکی کی معشیت کو ’تیزی سے تباہ‘ کرنے کا دعویٰ بھی کیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ شام سے انخلا کرنے والی امریکی فوجی کو جلد ہی خطے میں صورت حال پر نظر رکھنے کے لیے تعینات کر دیا جائے گا۔

ٹرمپ کا کہنا تھا: ’امریکہ معاشی پابندیوں کا جارحانہ استعمال کرتے ہوئے شام میں اس وحشیانہ کارروائی کرنے والوں کی معاشی مدد اور سہولت کاری کرنے والوں کو ہدف بنائے گا۔‘

امریکہ کی جانب سے ترکی کے دو وزرا اور تین عہدیداروں پر سفری پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں۔

امریکی وزارت خزانہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’ترکی کے دو وزرا اور تین عہدیداروں کے خلاف شام میں جاری ان کے فوجی آپریشن کے ردعمل‘ میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا:’ترکی حکوت کی کارروائی عام شہریوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے اور خطے کو غیر مستحکم کرتے ہوئے داعش کو شکست دینے کی مہم کو نقصان پہنچا رہی ہے۔‘

وائٹ ہاوس نے خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث نائب صدر مائیک پینس کے مشرق وسطیٰ کا دورہ کرنے کا اعلان بھی کیا۔

پینس کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے براہ راست صدر طیب اردوغان سے بات کی ہے اور ترکی کو بہت واضح انداز میں پیغام دیا ہے کہ ’امریکہ چاہتا ہے کہ اس حملے کو روک دیا جائے، فوری طور پر جنگ بندی کی جائے اور کرد ملیشیا کے ساتھ بات چیت کی جائے تاکہ شام میں جاری تشدد کو ختم کیا جا سکے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ صدر ٹرمپ ترکی کو طویل عرصے سے شمالی شام میں ممنکہ آپریشن کے لیے گذشتہ ہفتے ہری جھنڈی دکھانے کے بعد اب اپنے موقف سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ انہوں نے شام سے خصوصی امریکی فوجی دستوں کے انخلا کا اعلان بھی کیا تھا جو کردوں کے ساتھ مل کر داعش کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے۔

امریکی فوج کے شمالی شام سے انخلا کے بعد ترکی کو کردوں پر حملہ کرنے کا موقع ملا تھا جو خطے میں امریکہ کے مضبوط ترین اتحادی رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ کو اس فیصلے پر کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے خاص طور ری پبلکن سینیٹر لنزے گریم کی جانب سے جنہوں نے شام سے فوج نکالنے کے ٹرمپ کے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے۔

کرد جنگجو جو داعش کو پیچھے دھکیلنے والی سیرین ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کا حصہ ہیں، ترکی کی جارحیت کے بعد اب نئے اتحادی تلاش کر رہے ہیں۔

ایس ڈی ایف کے سربراہ جنرل مظلوم کوبانی عبدی نے داعش کے خلاف بنائے جانے عالمی اتحاد کے نائب سفیر ولیم روئبک کو جمعرات کو ہونے والی ایک ملاقات میں کہا کہ ’آپ نے ہمیں تنہا چھوڑ دیا ہے۔ آپ ہمیں مرنے کے لیے چھوڑ رہے ہیں۔‘ ان کی ملاقات کی تفصیل سی این این کو موصول ہونے والی ایک حکومت دستاویز میں درج ہے۔

 ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آپ ہمارے لوگوں کو بچانا نہیں چاہتے لیکن آپ یہ بھی نہیں چاہتے کہ کوئی اور ہمیں بچانے کی کوشش کرے۔ آپ ہمیں فروخت کر چکے ہیں۔ یہ غیر اخلاقی ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا