بولنے اور سننے والے بچوں کو اشاروں کی زبان سکھاتا ایک سکول

اسلام آباد کے ایک سکول میں بچوں میں احساس ہمدردی جگانے کے لیے نصاب میں پاکستان سائن لینگویج شامل کی گئی ہے۔

اسلام آباد کے ایک سکول سکولہ نووا میں بولنے اور سننے کی صلاحیت رکھنے والے بچوں کو اشاروں کی زبان سکھائی جا رہی ہے۔ فیالوقت یہاں کوئی ایسا طالب علم نہیں جو بولنے اور سننے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔ لیکن سکول کی ڈائریکٹر مسز نعیم کا کہنا ہے کہ وہ چاہتی ہیں کہ مستقبل میں پاکستان کا ہر بچہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکے، خواہ اس میں بولنے اور سننے کی صلاحیت ہو یا نہ ہو۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ لوگ جو بول نہیں سکتے ہیں اور سن نہیں سکتے، معاشرے سے بالکل الگ ہوگئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’اول تو ایسے بچوں کو سکول جانا نصیب نہیں ہوتا۔ لیکن جب ہوتا بھی ہے تو وہ الگ سکولوں میں جاتے ہیں۔ اس لیے وہ ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں بن پاتے۔ ان کو ہم لوگوں نے الگ کر دیا ہے۔‘

اشاروں کی زبان کو نصاب کا حصہ بنانے کا سفر چار سال پہلے شروع ہوا۔ نصاب کی تشکیل کے لیے مسز نعیم نے اپنے سٹاف کو لاہور اور کراچی کے ایسے سکولوں کا دورہ کرایا جہاں صرف وہ بچے جاتے ہیں جو بول نہیں سکتے یا سن نہیں سکتے۔ اس کے بعد ان کو نصاب کے لیے کتابیں ڈھونڈنے میں بھی دقت ہوئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مسز نعیم نے بتایا: ’پاکستان میں ایک ہی پبلشر ہے جو پاکستان سائن لینگویج (پی ایس ایل) کی کتابیں شائع کرتے ہیں۔ ان سے رابطہ کیا تو کتابوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کے آنے میں بھی وقت لگا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’پھر ایک اور مشکل آئی۔ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ ہمیں ایک ایسے ٹیچر کی ضرورت ہوگی جو خود قوت سماعت نہ رکھتا ہو۔ ہم سمجھتے تھے کہ بچوں کو اشاروں کی زبان کوئی بھی سکھا سکتا ہے۔ لیکن جب بچوں کو ایسی ٹیچر ملیں جو خود بول اور سن نہیں سکتیں، تو طلبہ میں زیادہ فرق آیا۔‘

مسز نعیم نے مزید بتایا کہ اشاروں کی زبان سیکھنا صرف اس کمیونٹی کے لیے نہیں بلکہ تمام بچوں کے لیے مفید ہے جو بول اور سن سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’جب کوئی بچہ کسی ایسے بچے کے ساتھ پلتا بڑھتا ہے جو سن نہیں سکتا اور بول نہیں سکتا تو اس میں ایک شعور پیدا ہوتا ہے۔ اس میں صبر آ جاتا ہے۔ وہ خود غرض نہیں ہوتا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا