شام میں صدر ٹرمپ کی پالیسی داعش میں دوبارہ روح پھونک سکتی ہے

ماہرین کا کہنا ہے کہ داعش البغدادی کی شخصیت سے بالاتر ہے اور ان کی موت داعش کے خلاف زمینی جنگ میں امریکی اتحادی کردوں کو تنہا چھوڑنے کی ٹرمپ کی غلطی کا مداوا نہیں کر سکتی۔

وائٹ ہاوس سے جاری کردہ اس تصویر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر امریکی اہلکار سچوئشن روم میں بیٹھے  ویڈیو کے ذریعے ابوبکر البغدادی  کے خلاف امریکی سپیشل آپریشنز فورسز  کے حملے کو دیکھ رہے ہیں (وائٹ ہاوس/ اے ایف پی)

داعش کی خلافت کے زوال سے بہت پہلے اور جنگ میں پہلی بار ہار کا مزہ چکھنے سے قبل جب دو ملکوں میں پھیلے ہوئے اس کے سفاک جنگجو ہزاروں لوگوں کا قتلِ عام کر رہے تھے، اس وقت بھی ابو بکر البغدادی جانتے تھے کہ ان کے دن گِنے جا چکے ہیں۔

عالمی دہشت گرد تنظیم کی رہنمائی کرنے والے البغدادی کے لیے یہ خطرہ ہمیشہ سے موجود تھا اور ان کی موت کے بعد کی ہنگامی منصوبہ بندی ضرور کی گئی ہو گی۔ داعش ایک منظم تنظیم تھی اور اب بھی ہے۔

جلد ہی داعش ایک نئے جانشین کا اعلان کرے گی، خود کو دوبارہ استوار کرنے کی کوشش کرے گی اور مزید حملوں کے ذریعے اپنی طاقت کا مظاہرہ بھی کر سکتی ہے۔ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ علامتی اور عملی طور پر البغدادی کی موت اس دہشت گرد تنظیم کے لیے ایک بہت بڑا دھچکہ ضرور ہے۔ 

البغدادی بڑے پیمانے پر قتلِ عام اور ہزاروں لوگوں کو اذیت پہنچانے کے ذمہ دار تھے۔ ان کے حکم کے تحت داعش نے یزیدی قبیلے کی نسل کشی کی اور ان کی ہزاروں خواتین کو لونڈیاں بنا کر رکھا۔ انہوں نے یرغمالیوں اور عام شہریوں کا قتل عام کیا جن میں زیادہ تر عراق اور شام کے مسلمان تھے۔

البغدادی 1971 میں عراقی شہر سامرا میں پیدا ہوئے اور 2003 میں عراق پر امریکی حملے کے بعد شدت پسندی کی جانب راغب ہوئے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ پیغمبر اسلام کی اولاد میں سے ہیں۔ ان کے دینی تعلیم کے پس منظر نے انہیں اپنے جہادی پیروکاروں کی نظر میں اونچا مقام دلوا دیا تھا۔

وہ اتنے ہی موثر ثابت ہوئے جتنے وہ ہولناک تھے۔ چند ہی سالوں میں وہ اس تنظیم کو زیرزمین شورش سے اٹھا کر ایک ریاست کی طرف لے گئے جس نے لاکھوں لوگوں پر حکمرانی کی۔

اتوار کی صبح وائٹ ہاؤس سے جاری ایک بیان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فاتحانہ لہجے میں البغدادی کی موت کو انتہائی تفصیل سے بیان کیا۔

ٹرمپ نے کہا: ’وہ کتے کی موت مرے۔ وہ بزدل شخص کی طرح مارے گئے۔ دنیا اب ایک زیادہ محفوظ جگہ بن چکی ہے۔ البغدادی کی موت سے امریکہ کے اس عزم کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے رہنماؤں کا پیچھا جاری رکھے گا۔‘

تاہم اب بھی البغدادی کی موت کا مطلب داعش کا خاتمہ نہیں ہے۔ در حقیقت ان کی موت ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب شام میں ٹرمپ کی پالیسی اس دہشت گرد تنظیم کی بحالی میں مدد دے سکتی ہے۔

اس ماہ کے شروع میں شام کی سرحد سے امریکی فوجیوں کے جزوی انخلا نے شمالی شام میں داعش کی اس علاقے میں شکست کے کچھ ہی مہینوں بعد تنازعے کے ایک نئے دور کو جنم دیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس انخلا کے چند ہی روز بعد ترک فوج نے داعش کے خلاف جنگ میں امریکہ کے کلیدی اتحادی کرد فورسز پر حملہ کر دیا اور ٹرمپ انتظامیہ کا موقف ہے کہ وہ ان کے درمیان حائل نہیں ہوں گے۔

اس لڑائی میں اب تک دو لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ترکی کے حملے میں درجنوں شہری ہلاک اور داعش کے 100 سے زائد قیدی فرار ہو گئے ہیں۔

شام میں داعش کو شکست دینے کے لیے امریکی فوج کے شانہ بشانہ کام کرنے والی ایس ڈی ایف نے ترکی اور شام میں اس کی پراکسیز سے لڑنے کے لیے داعش کے سلیپر سیلز کے خلاف اپنی کارروائیاں سست کر دی ہیں۔

شام میں امریکی فوجیوں کی قلیل موجودگی سے ترکی ایس ڈی ایف کے خلاف کارروائی سے باز رہا۔ انقرہ کردوں کی اس تنظیم کو ترکی میں کرد علیحدگی پسندوں سے تعلق کی بِنا پر اسے اپنے لیے خطرہ قرار دیتا ہے۔

اوباما انتظامیہ میں نیشنل سکیورٹی کونسل میں انسداد دہشت گردی کے سابق سینیئر ڈائریکٹر جوشوا اے گلٹزر کے مطابق: ’اس قدر اہمیت کے حامل دہشت گرد رہنما کا خاتمہ انٹیلی جنس اور فوجی اہلکاروں کے لیے ایک اہم کامیابی ہے جنہوں نے اسے ممکن بنایا اور یہ داعش کی بنیاد پرستی اور ان کی بھرتی جاری رکھنے کی صلاحیت کو کمزور کرنے میں ایک سنجیدہ اقدام ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’لیکن یہ گروہ البغدادی کی شخصیت سے بالاتر ہے اور یہ آپریشن داعش کے خلاف زمینی جنگ میں امریکہ کے اتحادی کردوں کو تنہا چھوڑنے کی ٹرمپ کی غلطی کا مداوا نہیں کر سکتا جس سے اس جنگ کے جلد خاتمے کا امکان نہیں ہے۔‘

البغدادی کی موت پر اپنے ردعمل میں ایس ڈی ایف نے اس بات کا اعادہ کیا کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے ترک آپریشن کی اجازت دینا ’داعش کے احیا کے لیے ایک زرخیز زمین کی فراہمی کے مترادف تھا جس سے نہ صرف اس خطے کو بلکہ پوری عالمی برادری کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔‘

شام میں امریکی پالیسی پر پائے جانے والے ابہام میں اضافہ کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے اتوار کو اپنی اولین ترجیح بیان کی جس کے مطابق وہ امریکی فوجی اہلکاروں کو شام کے مشرق میں تیل کے ذخائز کے تحفظ کے لیے استعمال کرنے کے خواہاں ہیں۔

ترک فوجی آپریشن کی راہ ہموار کرتے ہوئے امریکہ نے شمالی شام سے انخلا کے بعد تیل کی کنووں کی حفاظت کے لیے ایک بار پھر امریکی دستے شام روانہ کر دیے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے اتوار کو اپنے خطاب کے بعد صحافیوں کو بتایا: ’ہم شام اور ترکی کے درمیان اگلے 200 سالوں تک اپنی فوجیں نہیں رکھ سکتے۔ ہم وہاں سے انخلا کر چکے ہیں لیکن ہم تیل کے ذخائر بچانے کے لیے کچھ فوجی وہاں چھوڑ رہے ہیں۔‘

ان حالات میں تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ امریکہ کی اس پالیسی سے داعش کی واپسی کے خطرات بڑھ جائیں گے۔ اگر امریکہ شام سے مزید پیچھے ہٹتا ہے تو بغدادی کو ہلاک کرنے جیسے آپریشن انجام دینا زیادہ مشکل ہو جائے گا۔

مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے سینیئر فیلو اور کتاب ’دا سریین جہاد‘ کے مصنف چارلس لِسٹر نے کہا: ’عارضی طور پر داعش یقیناً غیر یقینی صورتحال کا شکار ہو جائے گی کیونکہ یہ قیادت کی تبدیلی کا سامنا کر رہی ہو گی لیکن آخر کار شام اور عراق میں موجود خلا، عدم استحکام اور مواقع سے اس تنظیم کو نقصان سے کہیں زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’شاید اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ البغدادی کی موت نے ٹرمپ کو ابھی تک کا بہترین بہانہ فراہم کیا ہے کہ وہ اب یہ کہہ سکتے ہیں کہ شام میں ان کا کام پورا چکا ہے۔ ایسا کرنا انتہائی غیر دانشمندانہ ہو گا کیونکہ یہی وقت ہے جب داعش کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی جائے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ یہ تنظیم دوبارہ سر نہ اٹھا سکے جس سے ہم سب خوفزدہ ہیں۔‘

اس اثنا میں جیسے ہی صدر ٹرمپ کے لیے داعش کے خلاف جنگ کی اہمیت کم ہوتی جائے گی وہ برادریاں جو پہلی بار اس دہشت گرد گروہ کے عروج کے وقت ان کا نشانہ بنی تھیں، دوبارہ ان کی فائرنگ کی زد میں آ جائیں گی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا