کشمیر کے معاملے پر چین اور بھارت کے درمیان سفارتی لڑائی

کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے باضابطہ خاتمے پر خطے میں دکانیں اور دفاتر بند جبکہ گلیاں اور سڑکیں سنسان رہیں۔

جموں و کشمیر کے پہلے اور نئے نائب گورنر گریش چندرا مرمو جمعرات کو سرینگر کی راج بھون عمارت میں حلف اٹھا رہے ہیں(اے ایف پی)

جمعرات کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے باضابطہ خاتمے اور لداخ اور جموں و کشمیر کی دو وفاقی اکائیوں میں تقسیم پر نئی دہلی اور چین کے درمیان سفارتی جھڑپ ہوئی ہے۔

خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق بدھ کی رات 12 بجے وفاقی حکومت کا یہ فیصلہ باضابطہ طور پر لاگو ہو چکا ہے اور اب یہ دونوں وفاقی اکائیاں براہ راست دہلی حکومت کے زیر انتظام ہوں گی۔

جمعرات کی صبح ان دونوں خطوں کے نائب گورنرز سے حلف بھی لیا جا چکا ہے۔ اس موقعے پر خطے میں دکانیں اور دفاتر بند جبکہ گلیاں اور سڑکیں سنسان رہیں۔

173 سال پرانی ریاست جموں و کشمیر میں پہلی مرتبہ اتنی بڑی تبدیلی ہوئی ہے۔

اسلام آباد نے جمعرات کے بھارتی قدم کی مذمت کی ہے جبکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کہیں کہیں مظاہرے دیکھنے میں آئے۔

 کئی دہائیوں سے کشمیر کے ایک حصے لداخ پر بھارت کے ساتھ تنازعے میں ملوث چین نے بھی نئی دہلی کے یک طرفہ فیصلے کی مذمت کی۔

اس ساری حکمت عملی کی سربراہی کرنے والے بھارت کے وزیر داخلہ امت شاہ کا کہنا ہے: ’کشمیر کے الحاق کا ادھورا خواب اب پورا ہو چکا ہے۔‘

بھارت کا خیال ہے کہ کشمیر میں غیر کشمیریوں کے لیے جائیداد خریدنے کی اجازت دینے اور علاقے میں باہر کے لوگوں کے آنے سے معاشی سرگرمیاں بڑھیں گی، جس سے نوکریوں کے مواقع پیدا ہوں گے اور عسکریت پسندی کی اُس لہر کو روکنے میں مدد ملے گی جس کے نتیجے میں 40ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

بھارت عسکریت پسندی کی اس لہر کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتا ہے جبکہ پاکستان ان الزامات کی مسلسل تردید کرتا آیاہے۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان جینگ شوانگ کے مطابق کشمیر تاریخی طور پر ایک متنازعہ علاقے ہے جس کو پر امن طور پر حل کیا جانا چاہیے۔

ایک نیوز بریفنگ میں جینگ شوانگ کا کہنا تھا: ’بھارت حکومت نے لداخ اور جموں و کشمیر کو وفاقی اکائی قرار دے دیا ہے باوجود اس کے کہ کچھ چینی علاقے بھی ان خطوں کا حصہ ہیں، چین اس کی مخالفت کرتا ہے، بھارت کا یک طرفہ طور پر مقامی قوانین اور انتظامی حیثیت کا تبدیل کرنا چین کے مفادات اور سالمیت کو للکارنے جیسا ہے، یہ بہت غلط اور نامناسب ہے۔ یہ اس حقیقت کو نہیں بدل سکتا کہ یہ علاقے چین کے زیر انتظام ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس پر بھارتی وزارت خارجہ نے چینی بیان مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور خطے میں کسی بھی قسم کی تبدیلیاں اس کا اندرونی معاملہ ہے۔

بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے نیوز کانفرنس کو بتایا: ’ہم امید نہیں کرتے کہ دوسرے ملک، بالخصوص چین، ایسے معاملات پر تبصرہ کرے جو بھارت کے اندرونی معاملات ہیں۔‘

کمار کا کہنا تھا چین نے ناصرف لداخ سمیت کشمیر کے مختلف علاقوں پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے بلکہ اس نے پاکستان کے کچھ حصوں کو غیر قانونی طور پر حاصل کر رکھا ہے۔

دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان سفارتی جھڑپ ایک ایسے وقت پر ہوئی جب کچھ دن قبل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور چینی صدر کے درمیان جنوبی بھارت میں ملاقات میں سیاسی اور معاشی تعلقات بہتر بنانے میں اتفاق ہوا تھا۔

جمعرات کو سری نگر کی سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کی برابر تھی۔ گلیوں میں صرف سکول جانے والے بچے دکھائی دے رہے جو امتحانات دینے جا رہے تھے، اگست سے جاری کریک ڈاؤن کے بعد بہت سے بچے سکول نہیں جا پا رہے تھے۔

آج علاقے میں احتجاجی طور پر دکانیں بند رہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے سری نگر کے مختلف علاقوں میں پولیس کی اضافی نفری تعینات کی گئی ،خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں پانچ اگست کے فیصلے کے خلاف احتجاج کیا گیا تھا۔

پولیس عہدے دار کے مطابق بدھ کو سری نگر سمیت کشمیر کے مختلف علاقوں میں 20 مقامات پر احتجاج کیا گیا۔

سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اور زیر حراست کئی سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کشمیریوں کو مزید بیگانگی سے بچانے کے لیے ان کے ساتھ بات چیت کرے۔

محبوبہ مفتی کا ٹوئٹر اکاؤنٹ سے، جو اب ان کی بیٹی التجا چلاتی ہیں،کہا گیا : ’بھارتی حکومت نے کشمیریوں کو کھائی میں دھکیل دیا ہے اور ان کے حقوق کے لیے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگر آپ کشمیریوں کو اپنا سمجھتے ہیں تو ان سے بات کریں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا