کم عمر میں بچیوں کی شادی پر شرمین عبید چنائے کی نئی فلم ’ستارہ‘

کم عمر میں شادیوں کے موضوع پر پاکستان کی معروف فلم ساز شرمین عبید چنائے کی نئی اینیمیٹڈ شارٹ فلم ’ستارہ‘ کی رونمائی حال ہی میں نیو یارک میں ہوئی۔

دو مرتبہ آسکر ایوارڈ اور تین مرتبہ ایمی ایوارڈ جیتنے والی پاکستان کی نامور ترین خواتین میں سے ایک شرمین عبید چنائے نے حال ہی میں نیویارک میں اپنی نئی اینیمیٹڈ شارٹ فلم ’ستارہ‘ کی رونمائی کی۔

’ستارہ‘  14 منٹ کی مختصر دورانیے کی اینیمیٹڈ فلم ہے جس میں بچیوں کی کم عمر میں شادی کو موضوع بنایا گیا ہے۔

امریکہ میں اپنی فلم کے کامیاب پریمیئر کے بعد شرمین عبید چنائے جب پاکستان پہنچیں تو ہم نے وقت ضائع کیے بغیر انہیں گفتگو کے لیے گھیر لیا کہ کہیں پھر عالمی دورے پر نہ نکل جائیں۔

شرمین سے اپنی گفتگو میں ہمارا پہلا سوال یہی تھا کہ ان کی نئی فلم ’ستارہ : بچی کو خواب دیکھنے دو ‘ کاموضوع اور مقصد کیا ہے؟

 انہوں نے بتایا: ’میں کافی عرصے سے بچوں کی کم عمری میں شادی کے بارے میں دستاویزی فلمیں بنارہی ہوں جس دوران بہت سی آپ بیتیاں میں نے خود سنیں ہیں۔ اس دوران مجھے خیال آیا کہ ایک اینیمیٹڈ فلم بنانی چاہیے جو ایک لڑکی کے خوابوں کے بارے میں ہو، اس لیے نام بھی ستارہ چنا اور یہ کہانی بھی ستاروں کے بارے میں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ستارہ‘ ایک 14 سالہ لڑکی کی کہانی ہے جو اپنے گھر کی چھت پر روز رات کو کاغذ کے جہاز بنا کر اڑاتی ہے۔ ’ جب آپ 14 منٹ کی وہ فلم دیکھتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے خاندان پر کس طرح کا دباؤ ہے اور کس طرح اس کے خواب اس سے چھینے جاتے ہیں۔‘

شرمین عبید چنائے کا خیال ہے کہ بچوں تک پیغام رسانی کے لیے اینیمیشن کا ذریعہ استعمال کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ اسی کے ذریعے نہ صرف بچوں بلکہ ان کے والدین کو بھی یہ سمجھانا ہوگا کہ اب انہیں اپنی بیٹیوں کی زندگیوں میں بھی وقت کی سرمایہ کاری کرنی ہوگی تاکہ  ان کے خواب حقیقت بن سکیں۔

مگر اینیمیٹد فلم ہی کیوں؟ اس پر شرمین عبید چنائے کا کہنا تھا کہ صرف اینیمیشن ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جو بچے اور بڑے دونوں دیکھتے ہیں اور ایک ساتھ دیکھتے ہیں۔ شرمین عبید چنائے کے مطابق اس فلم کو دنیا بھر میں دکھایا جارہا ہے جیسے کیمرون، لبنان، امریکہ اور اب پاکستان ، تو وہ چاہتی ہیں کہ سب ساتھ مِل کر یہ فلم دیکھیں جن میں بچے، والدین اور ان کے اساتذہ بھی ہوں اور پھر سب اس موضوع پر بات کریں، ان وجوہات پر جن کی وجہ سے آج بھی لڑکیوں کو زنجیروں میں باندھ دیا جاتا ہے اور وہ اپنے خواب کی طرف نہیں جاسکتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شرمین عبید چنائے ایک معروف دستاویزی فلم ساز ہیں اور اس لیے وہ تحقیق بہت ہی دقیق پیمانے پر کرتی ہیں۔ کم عمری میں شادی کے معاملے پر ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں تقریباً  ایک کروڑ بیس لاکھ لڑکیوں کی چھوٹی عمر میں شادی کردی جاتی ہے اور پاکستان میں 20 فیصد لڑکیاں ایسی ہیں جو اس جبر کا شکار ہوجاتی ہیں۔ تاہم یہ بھی بہت ہی محتاط اندازہ ہے، اس لیے بہت ضروری ہے کہ نہ صرف قانون ہو بلکہ ہر صورت میں قانون پر عمل درآمد بھی یقینی بنایا جائے۔

اپنی فلم ’ستارہ‘ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ہے تو ایک فرضی کہانی ، تاہم کیونکہ وہ ایک طویل عرصے سے کم عمر بچیوں کی شادی کے موضوع پر فلمیں بنا رہی ہیں تو ایسی بہت سی کہانیوں کی بنیاد پر فکشن تخلیق کی گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’ستارہ‘ صرف14 منٹ کی فلم ہے اور اس میں کوئی مکالمے نہیں ہیں اس لیے یہ کمرشل فلم کے طور پر سینما میں نہیں لگائی جاسکتی۔ تاہم اس کی سکول اور کمیونٹی مراکز میں خصوصی سکریننگ شروع کردی گئی ہے اور جلد ہی یہ آن لائن سٹریمنگ سروسز پر بھی دستیاب ہوگی۔

شرمین عبید چنائے نے ایمی اور آسکر ایوارڈز بطور دستاویزی فلم ساز حاصل کیے ہیں ، لیکن انہوں نے اینیمیشن کی دنیا میں قدم رکھتے ہوئے تین فیچر فلمز بھی بنائی جو تین بہادر سیریز کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ اس طرح انہیں پاکستانی سینما کا تجربہ بھی ہے ۔

پاکستان اور بھارت کی فلم انڈسٹری کے موازنے پر ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی فلمی صنعت بہت ہی نئی ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں بالی وڈ ایک بہت بڑی صنعت ہے مگر ابھی تک انہوں نے ایک بھی اکیڈ می ایوارڈ نہیں جیتا ہے جبکہ وہ سینکڑوں فلمیں بناتے ہیں اور ان کے پاس ہزاروں سینما موجود ہیں اور ان کی حکومت بھی سینما کی سرپرستی کرتی ہے۔

شرمین نے کہا کہ  پاکستان کے بہت سے فلم ساز جو عالمی سطح پر مختلف ایوارڈز جیت رہے ہیں جیسے حال ہی میں صائم صادق نے وینس فلم فیسٹیول میں ایوارڈ جیتا اور بوسان میں سرمد کھوسٹ نے جیتا ہے، تو پاکستانی فلم ساز عالمی سطح پر کام کررہے ہیں اور آنے والے چند سالوں میں ایک سے زیادہ ایسے فلم ساز ہوں گے جو آگے نکل جائیں گے۔

 شرمین نے خود فیچر فلم بنانے کے میدان میں فی الحال اترنے کا ارادہ نہیں کیا کیونکہ وہ بنیادی طور پر مختصر دورانیے کی فلمیں بنانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں یا پھر اینیمیشن فلموں کی جانب ان کا رجحان زیادہ ہے۔

 

زیادہ پڑھی جانے والی فلم