کراچی کے ساحل پر کوڑے میں کیا کیا ملتا ہے؟

سمندری ماحول کو صاف رکھنے کے لیے ’دا لاسٹ ارتھ لنگز‘ نامی نوجوانوں کا ایک رضاکار گروپ ہر ہفتے کراچی کے سی ویو ساحل سے پلاسٹک کی بوتلیں، تھیلیاں اور دیگر کوڑا جمع کرتا ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے مقبول ترین تفریحی مقام سی ویو ساحل پر پھیلے کوڑے اور پلاسٹک کو جمع کرنے کے لیے شہر کے نوجوانوں نے ’دا لاسٹ ارتھ لینگز‘ (زمین کے آخری باشندے) کے نام سے ایک گروپ تشکیل دیا ہے۔ اس گروپ سے جُڑے رضاکار ہر سنیچر کی صبح سی ویو ساحل پر جمع ہو کر وہاں سے کوڑا، پلاسٹک کی بوتلیں، تھیلیاں اور دیگر اقسام کا کچرا چن کر کوڑے دان میں ڈالتے ہیں تاکہ وہ کوڑا ساحل سے دور لے جایا جاسکے۔

گروپ تشکیل دینے والے کالج کے نوجوان طلبہ شہیر طارق اور نبیلہ زہرہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ شروع میں چند ہی لوگ تھے مگر اب ایک سو سے زائد رضاکار ان کے گروپ میں شامل ہوچکے ہیں۔

ان کے مطابق: ’اس گروپ کا نام ’دا لاسٹ ارتھ لینگز‘ اس لیے رکھا ہے کہ اگر ہم نے موسمیاتی تبدیلی پر کام نہیں کیا تو اس کرہ ارض پر ہم آخری باشندے ہوں گے۔ پلاسٹک موسمیاتی تبدیلی کی رفتار میں تیزی لارہا ہے تو ہم سب پر فرض ہے کہ ہم پلاسٹک کا کم استعمال کریں، ایسی پلاسٹک استعمال کریں جو دوبارہ استعمال ہوسکے اور اپنے سمندر کو صاف رکھیں۔‘

حال ہی میں سی ویو ساحل پر انتظامیہ کی جانب سے مچھلی نما سمندر ماحول دوست کوڑے دان کئی مقامات پر رکھے گئے مگر ساحل پر تفریح کے لیے آنے والے اس میں کوڑا ڈالنے کے بجائے اس پر جھولا جھولتے نظر آتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان وسیم اکرم کی اہلیہ شنیرا اکرم نے بھی حال ہی میں جب ساحل پر کوڑے میں ساتھ استعمال شدہ سرنجوں اور ہسپتال کے فضلے کی تصاویر اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کیں تو ایک شور مچ گیا اور حکومتی سطح پر اعلانات کیے گئے کہ ساحل کو صاف کیا جائے گا مگر ساحل پر کچرا جوں کا توں ہے۔

نوجوانوں کے اسی گروپ کے ایک رکن عبداللہ علی نے بتایا کہ پلاسٹک بوتلوں کے ساتھ انھیں ادویات کی خالی بوتلیں، استعمال شدہ سرنجیں اور تو اور استعمال شدہ کنڈوم بھی ملتے ہیں۔

گروپ کی کو فاؤنڈر نبیلہ زہرہ نے بتایا: ’پچھلے چار ماہ میں ہمارے گروپ نے تقریباً چار ٹن کوڑا ساحل سے صاف کیا ہے اور ہم کوڑا چننے کے لیے پلاسٹک کی تھیلی کی بجائے بوری کا استعمال کرتے ہیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ پلاسٹ کو پلاسٹک میں جمع کیا جائے۔‘  

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل