سدھو اور عمران جیت گئے، انتہا پسندی ہار گئی

سرحد کے دونوں طرف منفی پروپیگنڈے کے باوجود دنیا بھر کی سکھ برادری عمران خان اور نوجوت سنگھ سدھو کا شکریہ ادا کر رہی ہے۔

(اے ایف پی)

وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی کانگریس لیڈر اور اپنے دوست سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کو کرتار پور راہداری کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی دعوت بھیجی ہے، جس کے بعد نوجوت سنگھ سدھو پاکستان آنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔

ہفتہ 9 نومبر کو جب عمران خان گرونانک کی 550ویں سالگرہ کے موقع پر راہداری کا افتتاح کریں گے تو نوجوت سنگھ سدھو وہاں موجود ہوں گے۔

ادھر بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے جہاں 117 سیاست دانوں کو پاکستان جانے کی دعوت دی ہے، اس میں نوجوت سنگھ سدھو کا نام بھی شامل ہے۔ لیکن انہیں صرف شمولیت کی دعوت دی گئی ہے وہ کسی بھی قسم کی تقریب کے لیے مدعو نہیں ہیں۔ انہیں تقریبات سے دور رکھنے کے پیچھے وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ اور نوجوت سنگھ سدھو کے درمیان جاری سرد جنگ ہے جس پہ آگے چل کر بات کرتے ہیں، پہلے بات ہو جائے عمران خان اور نوجوت سنگھ سدھو کی دوستی کی۔

جب عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے تو انہوں نے اپنی تقریب حلف برداری میں بھارت سے اپنے ساتھ کرکٹ کھیلنے والے تین سابق کھلاڑیوں کپل دیو، سنیل گواسکر اور نوجوت سنگھ سدھو کو دعوت نامہ بھیجا۔

کپل دیو اور سنیل گواسکر تو نہیں آئے لیکن سابق کرکٹر اور حالیہ بھارتی سیاست دان نوجوت سنگھ سدھو تقریب میں شمولیت کے لیے پاکستان پہنچ گئے۔

تقریب میں شامل نوجوت سنگھ سدھو کا ایک ویڈیو کلپ وائرل ہوا جس میں نوجوت سنگھ سدھو پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے گلے ملتے نظر آئے۔ اس کے بعد تو جیسے بھارت میں کھلبلی مچ گئی۔ بھارتی جنتا پارٹی نے نوجوت سنگھ سدھو کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ کس طرح ایک کیبنٹ منسٹر دشمن ملک کے سپہ سالار سے گلے مل سکتا ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھارتی میڈیا نے بھی معاملہ خوب اچھالا۔ جس پر نوجوت سنگھ سدھو نے اسلام آباد میں اس معاملے پہ پریس کانفرنس کی اور بتایا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بتایا کہ اس بار بابا گرونانک کے 550ویں جنم دن پہ کرتار پور سرحد کھول دیں گے جس پہ انہوں نے خوشی سے ایک دوسرے کو گلے لگایا۔

نوجوت سنگھ سدھو کے اس بیان پہ بھی شکوک کا اظہار کیا گیا کہ کرتار پور بارڈر پچھلی کئی دہائیوں سے مسئلہ بنا ہوا ہے یہ ایک جھٹکے میں کیسے کھل سکتا ہے؟ پاکستان اور بھارت میں جاری کشیدگی کو دیکھتے ہوئے یہ ناممکن سی بات ہے کہ کرتار پور بارڈر کھل سکے۔ نوجوت سنگھ سدھو جب واپس بھارت پہنچے تو انہیں آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ میڈیا نے ان پہ طنز و تنقید کے نشتر چلائے۔ بھارتی شدت پسندوں کی بدولت ان کو کامیڈی ٹی وی شو سے ہاتھ دھونا پڑے۔

بھارتی سیاست دانوں نے یہاں تک کہا کہ کرتار پور کاریڈور نوجوت سنگھ سدھو کا مسئلہ ہے ہی نہیں یہ بھارتی حکومت کا معاملہ ہے اور نوجوت سنگھ پاکستان کی باتوں میں آ رہے ہیں اور نوجوت سنگھ سدھو گلے ملنے کو کوور اپ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ المختصر کسی نے ان پر یقین نہیں کیا۔

بھارتی حلقوں کا کہنا تھا کہ 2004 میں بھی یہ معاملہ اٹھا تھا اور سکھ برادری نے مطالبہ کیا تھا کہ انہیں بابا گرونانک کے گھر تک رسائی دی جائے۔ من موہن سرکار نے کوشش بھی کی تھی لیکن یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی تھی۔ نوجوت سنگھ سدھو کانگریس سے تعلق رکھتے ہیں اور 2004 میں جب حکومت بھی کانگریس کی تھی، اور وزیر اعظم بھی خود سکھ تھا، جب وہ اس مسئلے پہ کچھ نہیں کر سکا تو اب ایک کانگریسی وزیر بے جی پی کے دورِ حکومت میں دونوں ملکوں کے کشیدہ تعلقات کے بیچ کس طرح اتنا بڑا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچا سکتا ہے؟ یہ بات کسی کے گلے نہیں اتر رہی تھی۔

خیر اس معاملے کے تین مہینے بعد جب عمران خان کو وزیر اعظم بنے سو دن مکمل ہوئے تو انہوں نے 28 نومبر 2018 کو کرتار پور راہداری منصوبے کے سنگ بنیاد کا اعلان کر دیا۔

نوجوت سنگھ کو دوبارہ دعوت دی گئی اور سدھو دوبارہ پاکستان پہنچے۔ اس بار بھارتی میڈیا بھی یہاں موجود تھا۔ عمران خان نے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے کو ایک سال میں مکمل کر لیا جائے گا اور اگست 2019 تک پہلا مرحلہ مکمل کیا جائے گا، جس پر ایک بار پھر سوالات اٹھنے شروع ہو گئے کہ پاکستان کے لیے ایک سال میں یہ منصوبہ کرنا ممکن نہیں کیونکہ راوی پر پل کی تعمیر سمیت راہداری تعمیر کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔

لیکن کرتار پور راہداری کا کام بہت تیزی سے ہوا جس طرح عمران خان نے کہا تھا کہ بابا گرونانک کے 550ویں جنم دن پہ یہ منصوبہ مکمل ہو جائے گا، وہی ہوا اور اب یہ منصوبہ مکمل ہو چکا ہے۔

پاکستانی سنگ بنیاد کے بعد بھارتی حکومت نے بھی اعلان کیا کہ وہ اپنی طرف جو راہداری بنانی ہے اس پر کام شروع کر رہے ہیں۔ دونوں ملکوں نے اس پہ کام کا آغاز کر رکھا تھا کہ بھارت میں الیکشن کا انعقاد ہوا بھارتی جنتا پارٹی جیتی اور نریندر مودی دوبارہ بھارت کے وزیر اعظم بن گئے، جس کے بعد انہوں نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی اور دونوں ممالک کے درمیان حالات کشیدہ ہو گئے۔

اس سے عوامی سطح پہ اس تشویش کا اظہار کیا جانے لگا کہ کہیں کرتار پور راہداری منصوبہ کھٹائی میں نہ پڑ جائے۔

لیکن تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ آنے والی نسلیں یہ پڑھیں گی کہ کس طرح دو دشمن ممالک میں کشیدہ حالات کے باوجود عمران خان اور نوجوت سنگھ سدھو کی دوستی نفرت سے جیت گئی اور راہداری کا افتتاح کیا گیا۔

کوئی مانے یا نہ مانے سکھ برادری اس بات کا کریڈٹ عمران خان اور نوجوت سنگھ سدھو کو دے رہے ہیں۔ بھارت میں یہ پہلا موقع ہے جب ایک پاکستانی وزیر اعظم کے تعریفی پوسٹر آویزاں کیے گئے۔ سکھ برادری نوجوت سنگھ سدھو کا بھی شکریہ ادا کر رہی ہے، حالانکہ اس سے قبل نوجوت سنگھ سدھو اور بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ کے درمیان جاری سرد جنگ کے باعث نوجوت سنگھ سدھو کو نہ صرف وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے بلکہ وہ سیاسی منظر نامے سے بھی اوجھل ہو چکے تھے۔

مئی 2019 میں جب بھارتی پنجاب میں انتخابی مہم جاری تھی، بھٹنڈہ میں نوجوت سنگھ سدھو نے الیکشن ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والوں کو سبق سکھائیے۔ کیپٹن امریندر سنگھ کو یہ بات پسند نہیں آئی انہوں نے کہا کہ سدھو کا اشارہ ان کی طرف تھا، نوجوت سنگھ سدھو وزیر اعلیٰ بننا چاہتے ہیں اور انہیں کرسی سے ہٹانا چاہتے ہیں۔

الیکشن میں کانگریس کا نتیجہ خراب رہا۔ کیپٹن امریندر سنگھ نے پنجاب میں ہار کا بار نوجوت سنگھ سدھو پہ ڈالتے ہوئے ان کی وزارت تبدیل کر دی، حالانکہ کانگریس نے 13 میں سے آٹھ سیٹیں جیتی تھیں مگر چونکہ نوجوت سنگھ سدھو کانگریس کی وفاقی کمپین کے کرتا دھرتا تھے جہاں بھارتی جنتا پارٹی اکثریت میں رہی اس لیے کیپٹن امریندر سنگھ نے نوجوت سنگھ سدھو کو کنارے لگانے کا منصوبہ بنایا۔ نوجوت سنگھ سدھو نے اعلان کیا کہ اگر ان کی وزارت تبدیل کی گئی تو وہ کابینہ میں شامل نہیں ہوں گے۔ وہی ہوا، ان کو جب بجلی کی وزارت سونپی گئی انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد سے نہ صرف سدھو کانگریسی میٹنگز سے غائب تھے بلکہ وہ سیاسی منظرنامے سے بھی غائب سے ہو گئے تھے۔

لیکن اب کرتار پور راہداری کا افتتاح ان کی سیاست میں نئی روح پھونک رہا ہے کیونکہ اس سے پہلے جب کرتار پور راہداری منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا تب وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں سدھو کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ نوجوت سنگھ سدھو پہ تنقید بلاجواز ہے، ’کیا کرتار پور راہداری تب کھلے گی جب نوجوت سنگھ سدھو بھارت کے وزیراعظم بنیں گے؟‘

اب کیپٹن امریندر سنگھ پریشان ہیں کہ اس بار بھی عمران خان کی دوستی رنگ نہ دکھائے اور وزیر اعظم عمران خان سٹیج سے کوئی ایسی بات کر کے نوجوت سنگھ سدھو کی ہوا نہ بنا دے اس لیے انہوں نے راہداری منصوبے پہ متنازع بیان بھی دیا ہے کہ کرتار پور راہداری منصوبے کی آڑ میں پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی سے ہوشیار رہنا چاہیے۔

ان سب منفی پروپیگنڈے کے باوجود دنیا بھر کی سکھ برادری پاکستان سے خوش ہے اور وزیر اعظم عمران خان اور نوجوت سنگھ سدھو کا شکریہ ادا کر رہی ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ کرتار پور راہداری دونوں ملکوں کے درمیان ایک نئے خوشگوار تعلقات کا راستہ بنے گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست